حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ارت نے جونہی اسلام قبول کیا۔ مشرکین مکہ کو فوراً اس کی اطلاع ہوگئی اور انہوں نے حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ظلم وستم کے وہ پہاڑ توڑے کہ جو بھی مسلمان سنتا انگاروں پر لوٹنے لگتا۔ اہل مکہ نے لوہا گرم کرکے ان کا سر داغا کوئلوں کو دہکا کر حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ننگے بدن ان پر لٹایا۔ اب اس ظلم و ستم کے بعد بھی حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی کمزوری کا اظہار نہ کیا تو کفار کے دلوں میں مزید غصہ اور بدلہ لینے کا جذبہ پیدا ہوا اور انہوں نے پہلے تو ایک بھاری پتھر حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سینے پر رکھا....
پھر ایک شیطان نے اس پتھر پر چڑھ کر اچھل کود شروع کردی۔ دہکتے ہوئے کوئلے ان کے جسم کو جلا کر کمر میں گھس گئے اور چربی پگھل پگھل کر بہنے لگی اس سے کوئلے بھی بجھ گئے۔
حضرت خباب بن الارت رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر کفار نے اس قدر ظلم کیے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز بے اختیار ان کے حق میں دعا کی ....! اے اللہ خباب کی مدد فرما۔ حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیٹھ پر جلنے کے یہ داغ ہمیشہ موجود رہے۔ ان کی کھال جل گئی اور سفید داغ پڑگئے تھے۔ ان کا چھوٹا بچہ کمر کے ان سوراخوں میں انگلی ڈال کرکھیلا کرتا تھا۔ یہ تھے صبرواستقامت (برداشت کرنا اور دین پر جم جانا) کے زندہ پہاڑ حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن کا مبارک نام اسلام کی تاریخ کے صفحات پر جگمگارہا ہے۔