ممتاز مفتی

ایک پہاڑی کی چوٹی پر تین دیو رہتے تھے۔ ہوا، پانی اور بجلی۔پہاڑی کے نیچے ایک گائوں تھا۔ ان دیوئوں نے گائوں والوں کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی۔ کبھی پانی برستا اورپانی کا ریلا گائوں کو بہا کر لے جاتا۔ کبھی ہوا اس قدر زور سے چلتی کہ کھیت برباد ہوجاتے۔ کبھی بجلی کڑک کڑک کر گرتی اور گائوں والوں کے مویشی مر جاتے۔ گائوں والے ان دیوئوں سے بہت تنگ تھے۔

گائوں کا ایک سیانا بڈھا کہنے لگا کہ بھائیو! یوں تو جینا محال رہے گا۔ کیوں نہ ہم ایک وفد پہاڑ کی چوٹی پر بھیجیں اوران تینوں دیوئوں سے بات کریں۔ ممکن ہے کہ وہ ہم سے سمجھوتا کرنے پر رضا مند ہوجائیں، چنانچہ وفد بھیجا گیا۔ دیوئوں نے کہا ’’بھائیو!‘‘ ہم تمہارے دشمن نہیں۔ الٹا ہم تو تمہاری خدمت کرنے کو تیار ہیں۔ دراصل مشکل یہ ہے کہ ہم کچھ کرنے کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ تم ہمیں جو کام دو گے ہم کریں گے لیکن اگر تم نے ہمیں کرنے کیلئے کام نہ دیا تو ہم تمہاری بستی کو تباہ کردیں گے۔

مجھے ایسا لگتا ہے جیسے ہماری نئی نسل ان تین دیوئوں جیسی ہے۔ وہ کچھ کیے بغیر نہیں رہ سکتی اور چونکہ ہم نے انہیں بے قدری اور بے کاری کے عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے اس لیے وہ ایڈونچر کی تلاش میں تخریب کی جانب چل نکلے ہیں۔ تمام تر قصور ہمارا ہے۔

ممتاز مفتی