ممتازسیاح ابن بطوطہ

یہ واقعہ ممتازسیاح ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامہ ہند میں تحریر کیا ہے۔
میں ایک ویران گائوں میں گیا یہاں کے لوگ پانی پینے کیلئے بارش کا پانی تالابوں میں جمع کرلیتے ہیں مجھے اس پانی سے گھن آرہی تھی میں نے ایک کچا کنواں دیکھا اس پر مونج کی رسی پڑی ہوئی تھی لیکن ڈول نہ تھا۔ میں نے رسی میں اپنی دستار باندھی اس میں جو کچھ پانی لگ گیا میں وہ چوسنے لگا لیکن پیاس نہ بجھی پھر میں نے اپنا چمڑے کا موزہ رسی سے باندھا لیکن رسی ٹوٹ گئی اور موزہ کنویں میں جاپڑا۔ پھر میں نے دوسرا موزہ باندھا اور پیٹ بھر کر پانی پیا۔ اچانک مجھے ایک شخص نظر آیا۔ میں نے آنکھ اٹھا کر دیکھا تو یہ شخص کالے رنگ کا تھا اور اس کے ہاتھ میں لوٹا اور عصا تھا اور اس کے کندھے پر جھولی تھی۔
اس نے مجھ سے السلام علیکم کہا میں نے وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ جواب دیا۔ اس نے فارسی میں دریافت کیا ”چہ کسی“ میں نے کہا کہ : میں راستہ بھول گیا ہوں اس نے کہا کہ میں بھی راستہ بھولا ہوا ہوں۔
پھر اس نے اپنا لوٹا رسی سے باندھا اور پانی کھینچا میں نے ارادہ کیا کہ پانی پیوں اس نے کہا صبر کر۔ اس نے اپنی جھولی سے بھنے ہوئے چنے اور چاول نکالے اور کہا کہ: انہیں کھائو۔ میں نے وہ کھائے اور پانی پیا۔
اس نے وضو کرکے دو رکعت نماز پڑھی میں نے بھی وضو کیا اور نماز پڑھی۔
اس نے میرا نام پوچھا‘ میں نے کہا:
ابوعبداللہ محمد میرا نام ہے (ابن بطوطہ کااصل نام یہی ہے)
پھر میں نے اس سے اس کا نام دریافت کیا تو اس نے کہا قلب فارح (خوش دل) میں نے سوچا فال تو اچھی ہے۔ اس نے کہا کہ میرے ساتھ چل۔
میں نے کہا اچھا۔ تھوڑی دیر تک میں اس کے ساتھ پیدل چلتا رہا تھکاوٹ کی وجہ سے میرے اعضا نے جواب دے دیا اور میں کھڑا نہ رہ سکا۔
اس نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ میں بہت تھک گیا ہوں‘ اب چلا نہیں جاتا۔
اس نے کہا سبحان اللہ! مجھ پر سوار ہولے۔
میں نے کہا تو ضعیف آدمی ہے‘ مجھے اٹھا نہیں سکے گا۔
اس نے کہا تو سوار ہوجا‘ خدا مجھے طاقت بخشے گا۔ میں اس کے کندھوں پر سوار ہولیا۔ اس نے مجھے کہا کہ تو حَسبُنَا اللّٰہُ وَنِعمَ الوَکِیلُ پڑھتا چلا جا۔
میں نے اس کا ذکر شروع کیا اور مجھے نیند آگئی۔ جب میری آنکھ کھلی تو میں زمین پر لیٹا ہوا تھا۔ بیدار ہوا تو اس آدمی کاپتہ نہ لگا۔ میں نے خود کو ایک آباد گائوں میں پایا۔
میں حیران تھا کہ سینکڑوں میل کا سفر پلک جھپکنے میں کیسے طے ہوگیا۔ یہ سب کچھ ” حَسبُنَا اللّٰہُ وَنِعمَ الوَکِیلُ“ کا اعجاز تھا۔
یہ گائوں ہندووں کا تھا۔ اس علاقے کا حاکم ایک مسلمان بادشاہ تھا۔ لوگوں نے اسے خبر دی تو وہ میرے پاس آیا وہ مجھے اپنے گھر لے گیا۔ مجھے گرم گرم کھانا کھلایا۔ غسل دلایا۔ اس نے کہا کہ میرے پاس ایک گھوڑا اور ایک عمامہ ہے‘ جو ایک مصری شخص میرے پاس رکھ گیا تھا‘ وہ تم پہن لو۔
جب وہ عمامہ لایا تو یہ وہی کپڑے تھے جو میں نے اس مصری کو دئیے تھے جب وہ مجھے کول (بھارت کا ایک شہر) میں ملاتھا۔
میں نہایت متعجب ہوا اور سوچ رہا تھا کہ وہ شخص جو مجھے اپنے کندھوں پر سوار کرکے لایا‘ کون تھا۔
مجھے یاد آیا کہ سفر پر روانہ ہونے سے پہلے مجھے ایک ولی اللہ ابوعبداللہ مرشدی ملے تھے انہوں نے فرمایا تھا کہ تو ہندوستان جائیگا تووہاں تجھے میرا بھائی ملے گا اور وہ تجھے ایک سختی سے رہائی دیگا اور قلب فارح کا بھی یہی ترجمہ ہے۔
اب مجھے یقین ہوگیا ہے کہ یہ وہی شخص تھا جس کی خبر مجھے شیخ ابوعبداللہ مرشدی نے دی تھی۔ میں نے افسوس کیا کہ مجھے ان کی صحبت زیادہ دیر تک نصیب نہ ہوئی۔

►·٠•●♥ دیا ♥●•٠·◄