وہ جون کی ایک تپتی ہوئی دوپہر تھی جب احمد ایم اے کا امتحان دینے کے لئے گھر سے نکلا۔ راستے میں گرم ہوا کے تھپیڑے اس کے بدن سے ٹکرا رہے تھے گویا کہ تندور کی آگ ہو۔ جب وہ امتحان گاہ پہنچا تو ایک اور مصیبت سر پر آن پڑی۔ منتظمین نے امتحان دینے کا انتظام ایک ٹینٹ میں کر رکھا تھا جس میں نہ کوئی پنکھا تھا اور نہ ہی کوئی کنکریٹ کی دیوار جو اسے گرمی کی شدت سے بچا سکے۔ چارونا چار وہ اسی ماحول میں امتحان دینے کے لئے بیٹھا تو کچھ دیر بعد ہی بدن پسینے سے شرابور ہوگیا۔ اس نے امتحان لینے والے ایک ممتحن سے شکایت کی تو جواب ملا ۔
“میاں امتحان دینے کے لئے ایک امتحانی پرچے اور بیٹھنے کی جگہ کا ہونا کافی ہے ۔ اب ہم تمہارے لئے یہاں اے سی لگوانے سے تو رہے”۔
بہرحا ل کسی طرح احمد نے وہ پرچہ حل کیا اور ایک ناگوار تاثر کے ساتھ وہ واپس گھر لوٹ گیا۔
دوسرے دن وہ سو کر اٹھا تو اس کے والد نے پوچھا ۔
“بیٹا پرچہ کیسا ہوا؟”
” پرچہ تو اچھا حل ہوگیا لیکن ماحول انتہائی ناسازگار تھا “۔
احمد نے جواب دیا۔
“چلو بیٹا کوئی بات نہیں۔ اللہ کو شکر ادا کرو”۔
والد نے جواب دیا۔
” اللہ کا شکر کیوں ؟ آخر آپ ہر بات میں یہ کیوں کہتے رہتے ہیں کہ اللہ کا شکر ادا کرو؟”
احمد جھلائے ہوئے لہجے میں بولا۔
“بیٹا اللہ کا شکر اس لئے کہ وہی ہے جو تما م اچھائیوں کا منبع ہے۔ ہمیں جو بھی بھلائی پہنچتی ہے اسی کے اذن سے پہنچتی ہے۔ وہی خالق ہے جس نے تمہیں بھوک میں کھلایا، پیاس بجھانے کے لئے پانی دیا، تھکاوٹ دور کرنے کے لئے نیند عطا کی ، معاش کی سرگرمیوں کے لئے سورج کی روشنی دی،نفسیاتی و جنسی راحت کے لئے خاندان بنایا۔ پس اس کے احسانات کو مانو اور اس کا شکر ادا کرو”
ابھی لیکچر جاری تھا کہاحمد بات کاٹتے ہوئے بولا:
“اگر خدا نے یہ نعمتیں دیں تو کونسا احسان کیا۔ آخر بھوک بھی تو اسی نے پیدا کی، پیاس کا تقاضا اسی نے پیدا کیا، تھکن کی شدت اسی نے بنائی ۔جنسی تقاضا بھی تو اسی نے فطرت میں رکھا۔ تو جب یہ تقاضے اس نے پیدا کردئے تو اب یہ اس خدا کی ذمہ داری ہے وہ ان کو پورا کرنے کے لئے اپنی نعمتیں نازل کرے۔ اس میں شکر گذاری کہاں سے آگئی”۔
والد اس کی بات سن کر مسکرائے اور کچھ سوچتے ہوئے بولے۔
“خدا نے یہ کائنات کھانے ،پینے ، سونے ، جاگنے اور کمانے کے لئے نہیں بنائی بلکہ آزمائش کے لئے بنائی ہے۔ آزمائش کے لئے یہ سارے تقاضے پیدا کئے اور ان کو پورا کرنے کے لئے اپنی نعمتیں نازل فرمائیں۔ آزمائش کا تقاضاپورا کرنے کے لئے یہ کافی تھا کہ انسان کو ارادے کی قوت اور ایک لنگڑا لولا سا دھڑ دے دیا جاتا اور پھر اس کو آزمایا جاتا کہ وہ کس طرح مختلف حالات میں اپنے رد عمل کا اظہار کرتا ہے”۔
احمد اپنے والد کی بات کو غور سے سن رہا تھاکیونکہ اسے کل ممتحن کی کہی ہوئی بات یاد آرہی تھی کہ امتحان لینے کے ہماری ذمہ صرف امتحانی پرچہ فراہم کرنا اور جگہ کا بندوبست کرنا ہے جبکہ ارد گرد کے ماحول کی سازگاری ہماری ذمہ داری نہیں۔
والد نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا
” اس کے باوجود خدا نے آزمائش کے لئے انتہائی سازگار ماحول تیار کیا اور اسے اپنی نعمتوں سے بھر دیا تاکہ انسان کو اس امتحانی عمل میں کم سے کم مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ چنانچہ وہ چاہتا تو سب کو اندھا پیدا کردیتا ،یا لنگڑا ، لولا بنادیتا، یا انہیں کسی بیماری میں مبتلا رکھتا ۔لیکن اس نے انسانوں کی اکثریت کو صحت عطا کی اور انہیں کسی معذوری سے محفوظ رکھا۔ چنانچہ اس کا شکر اس بات کا کہ اس نے امتحان لینے کے عمل میں انتہائی سازگار ماحول بنایا”۔
احمد اتنی آسانی سے ہار ماننے والا نہ تھا چنانچہ اس نے کہا
“لیکن کیا یہ خدا کی اخلاقی ذمہ داری نہ تھی کہ وہ انسان کو آزمائش کے لئے ایک سازگار ماحول فراہم کرتا، اسے صحت دیتا، اس کے کھانے پینے، سونے جاگنے، نشونما کرنے اور دیگر ضروریات کو پورا کرتا؟”
والد صاحب اس کی بات سن کر مسکرائے اور بولے۔
” ایسا نہیں ہے ۔ یہ خدا کی اخلاقی ذمہ داری نہیں کہ وہ امتحان لینے کی غرض سے اپنی نعمتیں اپنے بندوں پر اتار دے ۔ بھوک دینے کے بعد اسے مٹانے کی ذمہ داری تو خدا کی ہے اور یہ ذمہ داری جانوروں کے چارے جیسی کسی غذا سے بھی پوری ہوسکتی تھی لیکن اس نے طرح طرح کے کھانے پیدا کردئے۔ اسی طرح پیاس بجھانے کے لئے انواع و اقسام کے مشروبات بنائے۔ نیند کے لئے سورج کو غروب کردیا وگرنہ وہ چاہتا تو دھوپ میں ہی انسان کو سونے کی آزمائش میں مبتلا کردیتا۔مزید یہ کہ اس نے کچھ انسانوں کو معذور بنا کر یا غذا سے محروم رکھ یہ دکھا دیا کہ آزمائش اس طرح بھی ہوسکتی ہے”۔
احمد ہتھیار ڈالنے سے پہلے ایک اور موقع حاصل کرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ وہ گویا ہوا۔
” لیکن آج کا انسان تو یہ سمجھتا ہے کہ اسے جو یہ نعمت حاصل ہوتی ہے وہ اسکی اپنی محنت سے حاصل ہوتی ہے یا پھر اس کے کچھ مادی اسباب ہوتے ہیں ۔ مثال کے طور پر انسان گندم کا بیج زمین میں بوتا ، اسے پانی دیتا اور پھر گندم کو پیدا کرکے اپنے استعمال میں لاتا ہے۔اس میں خدا کا کیا رول ہے؟”
والد صاحب نے تشویش ناک انداز میں اپنے بیٹے کو دیکھا اور بولے۔
” بیٹا انسان کی یہی غلط فہمی ہے کہ وہ یا تو خود کو یا پھر مادی اسباب کو ان نعمتوں کے حصول کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ اگر انسان نے گندم کا بیج زمین میں بویا تو یہ بونا کس نے سکھایا؟ کس نے پانی دینے کی تعلیم دی؟، کس نے گندم کے بیج کو پھاڑ کر کونپل کو پیدا کیا؟ کس نے ایک بیج سے ہزاروں گندام کے دانے بنائے؟ کیا انسان یہ نہیں دیکھتا کہ سارے مادی اسباب خدا نے بنائے ہیں۔ سورج کو کام پر اس نے لگایا، زمین کی گردش اس نے پیدا کی، آسمان کو تاروں سے اس نے سجایا، ہوا میں آکسیجن اس نے تیار کی، پانی میں پیاس بجھانے کی تاثیر اس نے رکھی۔ لیکن آج کا بدنصیب انسان یہ بات ماننے کے لئے تیار نہیں کیونکہ وہ اندھا ہے اس کی آنکھیں اسباب کے پیچھے خدا کا ہاتھ نہیں دیکھ پارہیں۔ وہ بہرا ہے اسکے کان خدا کی آواز نہیں سن پارہے۔ لیکن اس مصنوعی اندھے اور بہرے پن کے باوجود خدا کے حقیقی بندے دیدہ بینا بھی رکھتے ہیں اور سننے والے کان بھی”
“پس خدا تعریف کے لائق ہے کیونکہ وہ ہر خیر کا منبع ہے۔ اس نے انسان کو آزمائش کے لئے پیدا کرنے کے باوجود اپنی ان گنت نعمتوں سے سرفراز کیا اور امتحان کے لئے ایک سازگار ماحول پیدا کیا تاکہ اس کے بندے اسے پہچانیں، اسکی معرفت حاصل کریں اور اس کے شکر گزار بن کر رہیں”
الحمد للہ رب العٰلمین