ان دنوں میں ایک دیہاتی علاقے کے سرکاری ہسپتال میں ڈیوٹی دے رہا تھا ایک روز آدھی رات کو ڈسپنسر نے اطلاع دی کہ ایک میڈیکولیگل کیس آیا ہے چل کر دیکھا تو ایک بزرگ عمر ساٹھ پینسٹھ سال سفید براق ڈاڑھی‘ چہرہ پرنور ایسا کہ دیکھتے ہی رہ جائو ‘ مارنے والے نے پیٹ پھاڑ کر رکھ دیا تھا‘ تمام کپڑے خون میں لت پت تھے‘ معلوم ہوا کہ بیٹوں اور بھتیجوں میں تنازع تھا۔ مغرب کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکلے اور لڑکوں کو چھڑانے لگے۔ سگے بھتیجوں نے خنجرکے وار کرڈالے میں نے ایسا پرسکون چہرہ پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ زخم دیکھا تو پیٹ سے انتڑیاں باہر (اومینٹم) یعنی وہ پردہ جس کے عقب میں انتڑیاں ہوتی ہیں کٹا ہوا تھا عقل انسانی محو حیرت کہ یہ کیونکر اب تک زندہ ہیں۔ زخم کھلے چھ سات گھنٹے گزر گئے اور وہ زندہ ہی نہیں ہوش و حواس میں تھے۔ ادھر ہسپتال میں اوزار تو کجا بجلی بھی نہ تھی جو اوزار دستیاب ہوئے انگیٹھی پر ابالے گئے ایک گھنٹہ اور لگ گیا جب آپریشن کیلئے میز پر لٹایا اور میں نے کمر میں ٹیکہ لگانے کی کوشش کی تو انہوں نے یہ کہہ کر میرے رہے سہے ہوش اور باختہ کردئیے ڈاکٹر صاحب آپ جلدی کام کریں‘ زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے ابھی میرا وقت نہیں آیا ایسی حالت میں لالٹین کی روشنی میں کام کرنا بڑا مشکل تھا۔ بہرحال آہستہ آہستہ کام کرتا رہا‘ ان حضرت کے ہونٹ ہلتے رہے جب آپریشن ہوچکا تو اذانیں ہورہی تھیں‘ صبح دیر سے ہسپتال میں آیا‘ انہیں دیکھا تو وہ سورہے تھے۔ میری تمام کوشش کے باوجود ان کا زندہ رہنا میری عقل و دانش سے ماورا تھا گو یہ آپریشن میں نے پوری توجہ سے کیا تھا مگر مناسب اوزار اور ادویات نہ ہونے کے باعث میرے نزدیک ان کے زندہ رہنے کا چند فیصد امکان بھی نہ تھا تاہم ان کی نبض درست چل رہی تھی۔ دوسرے دن جب میں نے خیریت دریافت کی تو وہ کچھ پڑھ رہے تھے مجھے دیکھ کر سلام کا جواب دیا اور آہستہ آہستہ بولے جب انسان کو یقین ہو کہ ہمارا مرنا جینا اللہ کیلئے ہے ہم اللہ کے ہیں اور اس کی طرف لوٹ کر جانا ہے تو ایمان مضبوط ہوتا ہے جب یہ بات عین الیقین ہو تو موت کا ڈر نہیں رہتا۔ مومن زندگی کو اللہ کی نعمت سمجھتا ہے اور موت کو بھی۔ میرے تعجب کی کوئی انتہا نہ رہی جب پانچویں دن ان کے زخم قطعی درست تھے۔ ان کی خواہش کے باوجود میں نے انہیں ہسپتال سے رخصت نہ کیا جب پولیس ان کا بیان لینے آئی تو انہوں نے اپنے قاتل بھتیجوں کے خلاف بیان دینے سے انکار کردیا اور انہیں معاف کردیا جنہوں نے اپنی دانست میں تو انہیں مار ہی ڈالا تھا۔ میری ضد کرنے پر کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا۔ انہوں نے کہا ڈاکٹر صاحب اللہ تعالیٰ کو معاف کردینا بہت پسند ہے میری موت اسی لیے نہیں آئی کہ اگر مرجاتا تو میرے بھتیجے گرفتار ہوجاتے‘ اللہ تعالیٰ نے جب ان کو بچایا تو میں کیسے انہیں گرفتار کراتا جب میں نے علیحدگی میں تھانیدار کو یہ بتایا تو وہ حیران رہ گیا