Rain in Pakistan :-)

دُنیا میں جب بارش ہوتی ہے تو آواز آتی ہے
" واٹ آ رومانٹنگ ویدر" ( What A romantic Weather)

لیکن جب پاکستان میں بارش ہوتی ہے مختلف آوازیں آتی ہیں

(1) اُٹھو منڈیو منجے اندر کر لو

(2) موٹر تے تسلا رکھ وے بے ہدایتے

(3) تندور پجھ گیا سارا بے شرمو

(4) بکری اندر کرو لانتیو

(5) اوے ویکھ پرنالہ چلدا کہ نئیں

(6) بالن دا تے کسے نوں چھیتا ای نئیں سی ہُن کھا لو کھے تے سوا
►·٠•●♥ دیا ♥●•٠·◄                               

Looking Beautiful ♥

                                                              . . . . ♥ DiA ♥ . .. .

Appreciate-able :)

                                                                . . . . ♥ DiA ♥ . .. .

Its Sunnah :)

►·٠•●♥ دیا ♥●•٠·◄                                                                  
وہ جون کی ایک تپتی ہوئی دوپہر تھی جب احمد ایم اے کا امتحان دینے کے لئے گھر سے نکلا۔ راستے میں گرم ہوا کے تھپیڑے اس کے بدن سے ٹکرا رہے تھے گویا کہ تندور کی آگ ہو۔ جب وہ امتحان گاہ پہنچا تو ایک اور مصیبت سر پر آن پڑی۔ منتظمین نے امتحان دینے کا انتظام ایک ٹینٹ میں کر رکھا تھا جس میں نہ کوئی پنکھا تھا اور نہ ہی کوئی کنکریٹ کی دیوار جو اسے گرمی کی شدت سے بچا سکے۔ چارونا چار وہ اسی ماحول میں امتحان دینے کے لئے بیٹھا تو کچھ دیر بعد ہی بدن پسینے سے شرابور ہوگیا۔ اس نے امتحان لینے والے ایک ممتحن سے شکایت کی تو جواب ملا ۔
“میاں امتحان دینے کے لئے ایک امتحانی پرچے اور بیٹھنے کی جگہ کا ہونا کافی ہے ۔ اب ہم تمہارے لئے یہاں اے سی لگوانے سے تو رہے”۔
بہرحا ل کسی طرح احمد نے وہ پرچہ حل کیا اور ایک ناگوار تاثر کے ساتھ وہ واپس گھر لوٹ گیا۔
دوسرے دن وہ سو کر اٹھا تو اس کے والد نے پوچھا ۔
“بیٹا پرچہ کیسا ہوا؟”
” پرچہ تو اچھا حل ہوگیا لیکن ماحول انتہائی ناسازگار تھا “۔
احمد نے جواب دیا۔
“چلو بیٹا کوئی بات نہیں۔ اللہ کو شکر ادا کرو”۔
والد نے جواب دیا۔
” اللہ کا شکر کیوں ؟ آخر آپ ہر بات میں یہ کیوں کہتے رہتے ہیں کہ اللہ کا شکر ادا کرو؟”
احمد جھلائے ہوئے لہجے میں بولا۔
“بیٹا اللہ کا شکر اس لئے کہ وہی ہے جو تما م اچھائیوں کا منبع ہے۔ ہمیں جو بھی بھلائی پہنچتی ہے اسی کے اذن سے پہنچتی ہے۔ وہی خالق ہے جس نے تمہیں بھوک میں کھلایا، پیاس بجھانے کے لئے پانی دیا، تھکاوٹ دور کرنے کے لئے نیند عطا کی ، معاش کی سرگرمیوں کے لئے سورج کی روشنی دی،نفسیاتی و جنسی راحت کے لئے خاندان بنایا۔ پس اس کے احسانات کو مانو اور اس کا شکر ادا کرو”
ابھی لیکچر جاری تھا کہاحمد بات کاٹتے ہوئے بولا:
“اگر خدا نے یہ نعمتیں دیں تو کونسا احسان کیا۔ آخر بھوک بھی تو اسی نے پیدا کی، پیاس کا تقاضا اسی نے پیدا کیا، تھکن کی شدت اسی نے بنائی ۔جنسی تقاضا بھی تو اسی نے فطرت میں رکھا۔ تو جب یہ تقاضے اس نے پیدا کردئے تو اب یہ اس خدا کی ذمہ داری ہے وہ ان کو پورا کرنے کے لئے اپنی نعمتیں نازل کرے۔ اس میں شکر گذاری کہاں سے آگئی”۔
والد اس کی بات سن کر مسکرائے اور کچھ سوچتے ہوئے بولے۔
“خدا نے یہ کائنات کھانے ،پینے ، سونے ، جاگنے اور کمانے کے لئے نہیں بنائی بلکہ آزمائش کے لئے بنائی ہے۔ آزمائش کے لئے یہ سارے تقاضے پیدا کئے اور ان کو پورا کرنے کے لئے اپنی نعمتیں نازل فرمائیں۔ آزمائش کا تقاضاپورا کرنے کے لئے یہ کافی تھا کہ انسان کو ارادے کی قوت اور ایک لنگڑا لولا سا دھڑ دے دیا جاتا اور پھر اس کو آزمایا جاتا کہ وہ کس طرح مختلف حالات میں اپنے رد عمل کا اظہار کرتا ہے”۔
احمد اپنے والد کی بات کو غور سے سن رہا تھاکیونکہ اسے کل ممتحن کی کہی ہوئی بات یاد آرہی تھی کہ امتحان لینے کے ہماری ذمہ صرف امتحانی پرچہ فراہم کرنا اور جگہ کا بندوبست کرنا ہے جبکہ ارد گرد کے ماحول کی سازگاری ہماری ذمہ داری نہیں۔
والد نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا
” اس کے باوجود خدا نے آزمائش کے لئے انتہائی سازگار ماحول تیار کیا اور اسے اپنی نعمتوں سے بھر دیا تاکہ انسان کو اس امتحانی عمل میں کم سے کم مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ چنانچہ وہ چاہتا تو سب کو اندھا پیدا کردیتا ،یا لنگڑا ، لولا بنادیتا، یا انہیں کسی بیماری میں مبتلا رکھتا ۔لیکن اس نے انسانوں کی اکثریت کو صحت عطا کی اور انہیں کسی معذوری سے محفوظ رکھا۔ چنانچہ اس کا شکر اس بات کا کہ اس نے امتحان لینے کے عمل میں انتہائی سازگار ماحول بنایا”۔
احمد اتنی آسانی سے ہار ماننے والا نہ تھا چنانچہ اس نے کہا
“لیکن کیا یہ خدا کی اخلاقی ذمہ داری نہ تھی کہ وہ انسان کو آزمائش کے لئے ایک سازگار ماحول فراہم کرتا، اسے صحت دیتا، اس کے کھانے پینے، سونے جاگنے، نشونما کرنے اور دیگر ضروریات کو پورا کرتا؟”
والد صاحب اس کی بات سن کر مسکرائے اور بولے۔
” ایسا نہیں ہے ۔ یہ خدا کی اخلاقی ذمہ داری نہیں کہ وہ امتحان لینے کی غرض سے اپنی نعمتیں اپنے بندوں پر اتار دے ۔ بھوک دینے کے بعد اسے مٹانے کی ذمہ داری تو خدا کی ہے اور یہ ذمہ داری جانوروں کے چارے جیسی کسی غذا سے بھی پوری ہوسکتی تھی لیکن اس نے طرح طرح کے کھانے پیدا کردئے۔ اسی طرح پیاس بجھانے کے لئے انواع و اقسام کے مشروبات بنائے۔ نیند کے لئے سورج کو غروب کردیا وگرنہ وہ چاہتا تو دھوپ میں ہی انسان کو سونے کی آزمائش میں مبتلا کردیتا۔مزید یہ کہ اس نے کچھ انسانوں کو معذور بنا کر یا غذا سے محروم رکھ یہ دکھا دیا کہ آزمائش اس طرح بھی ہوسکتی ہے”۔
احمد ہتھیار ڈالنے سے پہلے ایک اور موقع حاصل کرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ وہ گویا ہوا۔
” لیکن آج کا انسان تو یہ سمجھتا ہے کہ اسے جو یہ نعمت حاصل ہوتی ہے وہ اسکی اپنی محنت سے حاصل ہوتی ہے یا پھر اس کے کچھ مادی اسباب ہوتے ہیں ۔ مثال کے طور پر انسان گندم کا بیج زمین میں بوتا ، اسے پانی دیتا اور پھر گندم کو پیدا کرکے اپنے استعمال میں لاتا ہے۔اس میں خدا کا کیا رول ہے؟”
والد صاحب نے تشویش ناک انداز میں اپنے بیٹے کو دیکھا اور بولے۔
” بیٹا انسان کی یہی غلط فہمی ہے کہ وہ یا تو خود کو یا پھر مادی اسباب کو ان نعمتوں کے حصول کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ اگر انسان نے گندم کا بیج زمین میں بویا تو یہ بونا کس نے سکھایا؟ کس نے پانی دینے کی تعلیم دی؟، کس نے گندم کے بیج کو پھاڑ کر کونپل کو پیدا کیا؟ کس نے ایک بیج سے ہزاروں گندام کے دانے بنائے؟ کیا انسان یہ نہیں دیکھتا کہ سارے مادی اسباب خدا نے بنائے ہیں۔ سورج کو کام پر اس نے لگایا، زمین کی گردش اس نے پیدا کی، آسمان کو تاروں سے اس نے سجایا، ہوا میں آکسیجن اس نے تیار کی، پانی میں پیاس بجھانے کی تاثیر اس نے رکھی۔ لیکن آج کا بدنصیب انسان یہ بات ماننے کے لئے تیار نہیں کیونکہ وہ اندھا ہے اس کی آنکھیں اسباب کے پیچھے خدا کا ہاتھ نہیں دیکھ پارہیں۔ وہ بہرا ہے اسکے کان خدا کی آواز نہیں سن پارہے۔ لیکن اس مصنوعی اندھے اور بہرے پن کے باوجود خدا کے حقیقی بندے دیدہ بینا بھی رکھتے ہیں اور سننے والے کان بھی”
“پس خدا تعریف کے لائق ہے کیونکہ وہ ہر خیر کا منبع ہے۔ اس نے انسان کو آزمائش کے لئے پیدا کرنے کے باوجود اپنی ان گنت نعمتوں سے سرفراز کیا اور امتحان کے لئے ایک سازگار ماحول پیدا کیا تاکہ اس کے بندے اسے پہچانیں، اسکی معرفت حاصل کریں اور اس کے شکر گزار بن کر رہیں”
الحمد للہ رب العٰلمین

ممتازسیاح ابن بطوطہ

یہ واقعہ ممتازسیاح ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامہ ہند میں تحریر کیا ہے۔
میں ایک ویران گائوں میں گیا یہاں کے لوگ پانی پینے کیلئے بارش کا پانی تالابوں میں جمع کرلیتے ہیں مجھے اس پانی سے گھن آرہی تھی میں نے ایک کچا کنواں دیکھا اس پر مونج کی رسی پڑی ہوئی تھی لیکن ڈول نہ تھا۔ میں نے رسی میں اپنی دستار باندھی اس میں جو کچھ پانی لگ گیا میں وہ چوسنے لگا لیکن پیاس نہ بجھی پھر میں نے اپنا چمڑے کا موزہ رسی سے باندھا لیکن رسی ٹوٹ گئی اور موزہ کنویں میں جاپڑا۔ پھر میں نے دوسرا موزہ باندھا اور پیٹ بھر کر پانی پیا۔ اچانک مجھے ایک شخص نظر آیا۔ میں نے آنکھ اٹھا کر دیکھا تو یہ شخص کالے رنگ کا تھا اور اس کے ہاتھ میں لوٹا اور عصا تھا اور اس کے کندھے پر جھولی تھی۔
اس نے مجھ سے السلام علیکم کہا میں نے وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ جواب دیا۔ اس نے فارسی میں دریافت کیا ”چہ کسی“ میں نے کہا کہ : میں راستہ بھول گیا ہوں اس نے کہا کہ میں بھی راستہ بھولا ہوا ہوں۔
پھر اس نے اپنا لوٹا رسی سے باندھا اور پانی کھینچا میں نے ارادہ کیا کہ پانی پیوں اس نے کہا صبر کر۔ اس نے اپنی جھولی سے بھنے ہوئے چنے اور چاول نکالے اور کہا کہ: انہیں کھائو۔ میں نے وہ کھائے اور پانی پیا۔
اس نے وضو کرکے دو رکعت نماز پڑھی میں نے بھی وضو کیا اور نماز پڑھی۔
اس نے میرا نام پوچھا‘ میں نے کہا:
ابوعبداللہ محمد میرا نام ہے (ابن بطوطہ کااصل نام یہی ہے)
پھر میں نے اس سے اس کا نام دریافت کیا تو اس نے کہا قلب فارح (خوش دل) میں نے سوچا فال تو اچھی ہے۔ اس نے کہا کہ میرے ساتھ چل۔
میں نے کہا اچھا۔ تھوڑی دیر تک میں اس کے ساتھ پیدل چلتا رہا تھکاوٹ کی وجہ سے میرے اعضا نے جواب دے دیا اور میں کھڑا نہ رہ سکا۔
اس نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ میں بہت تھک گیا ہوں‘ اب چلا نہیں جاتا۔
اس نے کہا سبحان اللہ! مجھ پر سوار ہولے۔
میں نے کہا تو ضعیف آدمی ہے‘ مجھے اٹھا نہیں سکے گا۔
اس نے کہا تو سوار ہوجا‘ خدا مجھے طاقت بخشے گا۔ میں اس کے کندھوں پر سوار ہولیا۔ اس نے مجھے کہا کہ تو حَسبُنَا اللّٰہُ وَنِعمَ الوَکِیلُ پڑھتا چلا جا۔
میں نے اس کا ذکر شروع کیا اور مجھے نیند آگئی۔ جب میری آنکھ کھلی تو میں زمین پر لیٹا ہوا تھا۔ بیدار ہوا تو اس آدمی کاپتہ نہ لگا۔ میں نے خود کو ایک آباد گائوں میں پایا۔
میں حیران تھا کہ سینکڑوں میل کا سفر پلک جھپکنے میں کیسے طے ہوگیا۔ یہ سب کچھ ” حَسبُنَا اللّٰہُ وَنِعمَ الوَکِیلُ“ کا اعجاز تھا۔
یہ گائوں ہندووں کا تھا۔ اس علاقے کا حاکم ایک مسلمان بادشاہ تھا۔ لوگوں نے اسے خبر دی تو وہ میرے پاس آیا وہ مجھے اپنے گھر لے گیا۔ مجھے گرم گرم کھانا کھلایا۔ غسل دلایا۔ اس نے کہا کہ میرے پاس ایک گھوڑا اور ایک عمامہ ہے‘ جو ایک مصری شخص میرے پاس رکھ گیا تھا‘ وہ تم پہن لو۔
جب وہ عمامہ لایا تو یہ وہی کپڑے تھے جو میں نے اس مصری کو دئیے تھے جب وہ مجھے کول (بھارت کا ایک شہر) میں ملاتھا۔
میں نہایت متعجب ہوا اور سوچ رہا تھا کہ وہ شخص جو مجھے اپنے کندھوں پر سوار کرکے لایا‘ کون تھا۔
مجھے یاد آیا کہ سفر پر روانہ ہونے سے پہلے مجھے ایک ولی اللہ ابوعبداللہ مرشدی ملے تھے انہوں نے فرمایا تھا کہ تو ہندوستان جائیگا تووہاں تجھے میرا بھائی ملے گا اور وہ تجھے ایک سختی سے رہائی دیگا اور قلب فارح کا بھی یہی ترجمہ ہے۔
اب مجھے یقین ہوگیا ہے کہ یہ وہی شخص تھا جس کی خبر مجھے شیخ ابوعبداللہ مرشدی نے دی تھی۔ میں نے افسوس کیا کہ مجھے ان کی صحبت زیادہ دیر تک نصیب نہ ہوئی۔

►·٠•●♥ دیا ♥●•٠·◄                                                                    

(ابن ماجہ‘ مسند احمد‘ طبرانی)

حضرت ام ھانی رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے۔ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ! میں بوڑھی اور کمزور ہوگئی ہوں‘ کوئی عمل ایسا بتادیجئے کہ بیٹھے بیٹھے کرتی رہا کروں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سُبحَانَ اللّٰہِ سو مرتبہ پڑھا کرو‘ اس کا ثواب ایسا ہے گویا تم اولاد اسماعیل میں سے سوغلام آزاد کرو۔ اَلحَمدُ لِلّٰہِ سو مرتبہ پڑھا کرو‘ اس کا ثواب ایسے سو گھوڑوں کے برابر ہے جن پر زین کسی ہوئی ہو اور لگام لگی ہوئی ہو انہیں اللہ تعالیٰ کے راستے میں سواری کیلئے دے دو۔ اَللّٰہُ اَکبَرُ سو مرتبہ پڑھا کرو‘ اس کا ثواب ایسے سو اونٹوں کو ذبح کیے جانے کے برابر ہے جن کی گردنوں میں قربانی کا پٹہ پڑا ہوا ہو اور ان کی قربانی اللہ تعالیٰ کے یہاں قبول ہو۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ سو مرتبہ پڑھا کرو اس کا ثواب تو آسمان اورز مین کے درمیان کو بھردیتا ہے اور اس دن تمہارے عمل سے بڑھ کر کسی کا کوئی عمل نہیں ہوگا جو اللہ تعالیٰ کے یہاں قبول ہو البتہ اس شخص کا عمل بڑھ سکتا ہے جس نے تمہارے جیساعمل کیا ہو۔
(ابن ماجہ‘ مسند احمد‘ طبرانی)

►·٠•●♥ دیا ♥●•٠·◄                                                      

ایک بچوں کی کہانیوں کی کتاب میں کبھی ایک خرگوش کی کہانی پڑھی تھی ۔ وہ کہانی لکھی تو بچوں کیلئے گئی تھی مگر اس میں جو سبق دیا گیا تھا وہ بچوں سے زیادہ بڑوں کیلئے مفید ہے۔
میاں خرگوش بڑے اداس تھے کیونکہ ان کا بیٹا کہیں شادی کرنے کو تیار نہیں تھا۔ ایک دن میاں خرگوش نے اپنے بیٹے کو بلایا اور کہا بیٹا میں بہت اداس ہوں کیونکہ تم کہیں شادی نہیں کرتے ہو۔ مجھے اس بات کا بے حد دکھ ہے‘ تم بن بیاہے پھرتے ہو۔ بیٹے نے جواب دیا ابا جان میں نے اس مسئلے پر بے حد غور کیا ہے اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں ایک نہ ایک دن ضرور شادی کر لوں گا۔ مگر فی الحال ممکن نہیں۔ خرگوش نے کہا کیوں ممکن نہیں ۔ بیٹے نے جواب دیا اس لئے کہ مجھے اپنی پسند کی بیوی نہیں ملتی۔ خرگوش نے پوچھا وہ کیسے؟ بیٹے نے جواب دیا پہلے میں نے سوچا تھا کہ کچھوے کی بیٹی سے شادی کر لوں۔ وہ بہت عقلمند ہے وہ اچھی طرح گھر چلائے گی۔ مگر پھر مجھے معلوم ہوا وہ تو جھوٹ بولا کرتی ہے اس لئے اس کا خیال چھوڑ دیا۔ خرگوش نے کہا ہوں۔
بیٹے نے کہا پھر مجھے خیال آیا کہ سانپ کی بیٹی سے شادی کر لوں و ہ لہرا لہرا کر چلتی ہے ‘ دل کو بھاتی ہے مگر پھر مجھے معلوم ہوا کہ وہ تو آئے دن نئے نئے کپڑے بدلتی ہے ۔ ایک کپڑا ذرا پرانا ہوا تو جھٹ اتار پھینکا اور دوسرا جوڑا پہن لیا۔ اگر میں اس سے شادی کر لیتا تو وہ ہر روز نئے نئے کپڑوں کا مطالبہ کرتی رہتی چنانچہ میں نے اس کا خیال بھی جانے دیا۔ خرگوش نے کہا ہوں۔ بیٹا بولا پھر میں نے سوچا کہ چیتے کی بیٹی سے شادی کر لوں مگر پھر مجھے معلوم ہوا وہ تو بے حد غصیلی ہے چنانچہ میں نے اس کا خیال بھی چھوڑ دیا۔ خرگوش نے کہا اچھا‘ بیٹا بولا پھر میں نے سوچا دریائی گھوڑے کی بیٹی سے شادی کر لوں وہ بہت مہربان نظر آتی ہے۔ وہ ایک اچھی بیوی ثابت ہو گی مگر بعد میں مجھے پتہ چلا وہ تو بے وقوف ہے بس میں نے اس کا خیال بھی چھوڑ دیا۔ خرگوش نے کہا پھر‘ بیٹا بولا پھر میں نے سوچا کہ لگڑ بگڑ کی بیٹی سے شادی کر لوں وہ بہت چالاک ہے اور چلتی پھرتی اچھی لگتی ہے۔ مگر مجھے پتہ چلا وہ تو بے حد مکار ہے ۔ بس میں نے اس پر بھی صبر کر لیا۔ خرگوش نے کہا پھر ‘ بیٹا بولا بس یہی وجہ ہے کہ میں آج تک شادی نہ کر سکا۔ اب میں اس انتظار میں ہوں کہ مجھے کوئی ایسی بیوی مل جائے جو عقلمند بھی ہو‘ خوبصورت بھی ہو‘ چست و چالاک بھی ہو ‘ مہربان طبیعت بھی رکھتی ہو گھر بھی اچھی طرح چلائے‘ مکاری بھی نہ کرے‘ جھوٹ بھی نہ بولے‘ غصے میں بھی نہ آئے اور نئے نئے کپڑے بھی نہ مانگا کرے۔ خرگوش نے کہا میرے بیٹے پھر بس صبر کر کے بیٹھ جاﺅ کیونکہ تم کبھی بیاہے نہیں جا سکو گے۔
ہماری سوسائٹی میں آج کل رشتے کرنے کے معاملے میں معیار عموماً اتنا اونچا رکھا جاتا ہے کہ خرگوش کے اس باریک بین بیٹے کی طرح بہت سا نوجوان طبقہ بن بیاہے بیٹھا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ مناسب عمریں گزر جاتی ہیں اور اپنے پیچھے بے شمار پیچیدگیاں چھوڑ جاتی ہیں۔ لڑکیاں خود اور ان کے والدین رشتہ کرتے ہوئے لڑکوں کے بارے میں معیار اتنا اونچا رکھے ہیں کہ اس معیار کے لڑکے ملنا محال ہو جاتے ہیں اور دوسری طرف خود لڑکے اور لڑکوں کے والدین لڑکیوں کے معاملے میں اس قدر باریک بین ہو جاتے ہیں کہ کوئی لڑکی ان کی نگاہ میں جچتی ہی نہیں۔ اس چھان بین کی وجہ سے وقت گزرتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ شادی کی مناسب عمریں گزر جاتی ہیں اور عمریں زیادہ ہو جانے کے باعث اچھا رشتہ ملنا اور بھی زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔
یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ اولاد بے حد عزیز ہوتی ہے کہ سب والدین یہی چاہتے ہیں کہ بہتر سے بہتر رشتہ ملے۔ مگر خدا نے عقل بھی اسی لئے دی ہے کہ اس سے کام لیا جائے۔ اولاد کی شادی کے سلسلے میں معیار کو بہت زیادہ بڑھا لینا بعض اوقات خود اولاد کیلئے مضر ثابت ہوتا ہے۔ معیاری رشتے تلاش کرتے کرتے اعلیٰ رشتے بھی ہاتھ سے نکل جاتے ہی اوروقت گنوا کے پھر معمولی رشتے پہ قناعت کرنا پڑتی ہے۔ ایسی بہت ساری مائیں آپ کو ملیںگی جو اس غم میں گھلی جارہی ہیں کہ ان کی بیٹیوں کے رشتے نہیں ہو رہے مگر کسی صورت میں اپنے معیار کو کم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ لڑکے پڑھے لکھے ہوں۔ اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز ہوں۔
اخلاق و عادات کے بھی اچھے ہوں۔ طور طریقے بھی عمدہ رکھتے ہوں۔ شکل و صورت بھی غیر معمولی ہو۔ اچھے خاندانوں سے بھی تعلق رکھتے ہوں ‘ وغیرہ وغیرہ۔ اب ظاہر ہے ایسے بہت کم انسان ہوں گے جن میں یہ تمام صفات جمع ہوں ۔ شادی کو خدا نے اخلاق اور ایمان کی حفاظت کا ذریعہ بنایا ہے۔ اس لئے اس کو بھاری بھرکم اور مشکل بنانے کی بجائے آسان بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ الٹی سیدھی ہندﺅوانہ رسوم کی پابندی کرنا اور رشتے کے معیار کو بہت زیادہ بڑھا لیتے ہیں ہر کام مشکل سے مشکل ہوتا چلا جا رہا ہے۔ جتنا یہ مشکل ہوتا جارہا ہے اتنے ہی طبقے کے اخلاق اور ایمان کے خطرے میں پڑنے کے امکانات بھی بڑھتے جارہے ہیں۔

►·٠•●♥ دیا ♥●•٠·◄                                                                     
حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ارت نے جونہی اسلام قبول کیا۔ مشرکین مکہ کو فوراً اس کی اطلاع ہوگئی اور انہوں نے حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ظلم وستم کے وہ پہاڑ توڑے کہ جو بھی مسلمان سنتا انگاروں پر لوٹنے لگتا۔ اہل مکہ نے لوہا گرم کرکے ان کا سر داغا کوئلوں کو دہکا کر حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ننگے بدن ان پر لٹایا۔ اب اس ظلم و ستم کے بعد بھی حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی کمزوری کا اظہار نہ کیا تو کفار کے دلوں میں مزید غصہ اور بدلہ لینے کا جذبہ پیدا ہوا اور انہوں نے پہلے تو ایک بھاری پتھر حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سینے پر رکھا....
پھر ایک شیطان نے اس پتھر پر چڑھ کر اچھل کود شروع کردی۔ دہکتے ہوئے کوئلے ان کے جسم کو جلا کر کمر میں گھس گئے اور چربی پگھل پگھل کر بہنے لگی اس سے کوئلے بھی بجھ گئے۔
حضرت خباب بن الارت رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر کفار نے اس قدر ظلم کیے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز بے اختیار ان کے حق میں دعا کی ....! اے اللہ خباب کی مدد فرما۔ حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیٹھ پر جلنے کے یہ داغ ہمیشہ موجود رہے۔ ان کی کھال جل گئی اور سفید داغ پڑگئے تھے۔ ان کا چھوٹا بچہ کمر کے ان سوراخوں میں انگلی ڈال کرکھیلا کرتا تھا۔ یہ تھے صبرواستقامت (برداشت کرنا اور دین پر جم جانا) کے زندہ پہاڑ حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن کا مبارک نام اسلام کی تاریخ کے صفحات پر جگمگارہا ہے۔

►·٠•●♥ دیا ♥●•٠·◄                                                          

نفیس کی بس دعا یہی ہے فقیر کی اب صدا یہی ہی سواد طیبہ میں رہنےوالو کو عمر بھر کا سلام پہنچے

کچھ لوگوں کو شاعری بالکل پسند نہیں ہے ، اور وہ اسے فضول کام کہتے ہیں تو انکے لیے یہ کلام پوسٹ کر رہی ہوں کہ ساری شاعری ہی فضول نہیں ہوتی یہ کلام ایک بہت بڑے ولی اللہ کا ہے جو کہ اولاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہیں بہت سے لوگ انکے نام سے واقف ہوں گے

ّالٰہی محبوب کل جہاں کو دل و جگر کا سلام پہنچے
نفس نفس کا درود پہنچےنظر نظر کا سلام پہنچے

بِساط عالم کی وسعتوں سےجہان بالا کی رفعتوں سے
مَلَک مَلَک کا درود اترےبشَر بشَر کا سلام پہنچے

حضور کی شام شام مہکےحضور کی رات رات جاگے
ملائکہ کےحسیں جلو میں سحر سحر کا سلام پہنچے

زبان فطرت ہے اس پےناطق یہ بارگاہِ نبی صادق
شجر شجر کا درود جائےحجر حجر کا سلام پہنچے

رسولِ رحمت کا بارِ احساں تمام خلقت کےدوش پر ہے
تو ایسےمحسن کو بستی بستی نگر نگر کا سلام پہنچے

مرا قلم بھی ہے انکا صدقہ مرےہنر پر ہےانکی رحمت
حضور خواجہ مرےقلم کا مرےہنر کا سلام پہنچے

یہ التجا ہےکہ روز محشر گنہگاروں پہ بھی نظر ہو
شفیعِ امت کو ہم غریبوں کی چشم تر کا سلام پہنچے

نفیس کی بس دعا یہی ہے فقیر کی اب صدا یہی ہی
سواد طیبہ میں رہنےوالو کو عمر بھر کا سلام پہنچے
ان دنوں میں ایک دیہاتی علاقے کے سرکاری ہسپتال میں ڈیوٹی دے رہا تھا ایک روز آدھی رات کو ڈسپنسر نے اطلاع دی کہ ایک میڈیکولیگل کیس آیا ہے چل کر دیکھا تو ایک بزرگ عمر ساٹھ پینسٹھ سال سفید براق ڈاڑھی‘ چہرہ پرنور ایسا کہ دیکھتے ہی رہ جائو ‘ مارنے والے نے پیٹ پھاڑ کر رکھ دیا تھا‘ تمام کپڑے خون میں لت پت تھے‘ معلوم ہوا کہ بیٹوں اور بھتیجوں میں تنازع تھا۔ مغرب کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکلے اور لڑکوں کو چھڑانے لگے۔ سگے بھتیجوں نے خنجرکے وار کرڈالے میں نے ایسا پرسکون چہرہ پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ زخم دیکھا تو پیٹ سے انتڑیاں باہر (اومینٹم) یعنی وہ پردہ جس کے عقب میں انتڑیاں ہوتی ہیں کٹا ہوا تھا عقل انسانی محو حیرت کہ یہ کیونکر اب تک زندہ ہیں۔ زخم کھلے چھ سات گھنٹے گزر گئے اور وہ زندہ ہی نہیں ہوش و حواس میں تھے۔ ادھر ہسپتال میں اوزار تو کجا بجلی بھی نہ تھی جو اوزار دستیاب ہوئے انگیٹھی پر ابالے گئے ایک گھنٹہ اور لگ گیا جب آپریشن کیلئے میز پر لٹایا اور میں نے کمر میں ٹیکہ لگانے کی کوشش کی تو انہوں نے یہ کہہ کر میرے رہے سہے ہوش اور باختہ کردئیے ڈاکٹر صاحب آپ جلدی کام کریں‘ زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے ابھی میرا وقت نہیں آیا ایسی حالت میں لالٹین کی روشنی میں کام کرنا بڑا مشکل تھا۔ بہرحال آہستہ آہستہ کام کرتا رہا‘ ان حضرت کے ہونٹ ہلتے رہے جب آپریشن ہوچکا تو اذانیں ہورہی تھیں‘ صبح دیر سے ہسپتال میں آیا‘ انہیں دیکھا تو وہ سورہے تھے۔ میری تمام کوشش کے باوجود ان کا زندہ رہنا میری عقل و دانش سے ماورا تھا گو یہ آپریشن میں نے پوری توجہ سے کیا تھا مگر مناسب اوزار اور ادویات نہ ہونے کے باعث میرے نزدیک ان کے زندہ رہنے کا چند فیصد امکان بھی نہ تھا تاہم ان کی نبض درست چل رہی تھی۔ دوسرے دن جب میں نے خیریت دریافت کی تو وہ کچھ پڑھ رہے تھے مجھے دیکھ کر سلام کا جواب دیا اور آہستہ آہستہ بولے جب انسان کو یقین ہو کہ ہمارا مرنا جینا اللہ کیلئے ہے ہم اللہ کے ہیں اور اس کی طرف لوٹ کر جانا ہے تو ایمان مضبوط ہوتا ہے جب یہ بات عین الیقین ہو تو موت کا ڈر نہیں رہتا۔ مومن زندگی کو اللہ کی نعمت سمجھتا ہے اور موت کو بھی۔ میرے تعجب کی کوئی انتہا نہ رہی جب پانچویں دن ان کے زخم قطعی درست تھے۔ ان کی خواہش کے باوجود میں نے انہیں ہسپتال سے رخصت نہ کیا جب پولیس ان کا بیان لینے آئی تو انہوں نے اپنے قاتل بھتیجوں کے خلاف بیان دینے سے انکار کردیا اور انہیں معاف کردیا جنہوں نے اپنی دانست میں تو انہیں مار ہی ڈالا تھا۔ میری ضد کرنے پر کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا۔ انہوں نے کہا ڈاکٹر صاحب اللہ تعالیٰ کو معاف کردینا بہت پسند ہے میری موت اسی لیے نہیں آئی کہ اگر مرجاتا تو میرے بھتیجے گرفتار ہوجاتے‘ اللہ تعالیٰ نے جب ان کو بچایا تو میں کیسے انہیں گرفتار کراتا جب میں نے علیحدگی میں تھانیدار کو یہ بتایا تو وہ حیران رہ گیا

:-D

ایک دوست نے دوسرے سے کہا
میں اور میرے بہترین دوست ارشد نے جب یہ پڑھا کہ تمہارا سچا اور حقیقی دوست وہ ہے جو تمہیں تمہارے عیبوں سے آگاہ کرے۔تو ہم نے اس پر عمل درآمد کا فیصلہ کیا۔
دوسرے نے پوچھا
اس سے تم دونوں کو اپنی اصلاح کرنے میں کافی مدد ملی ہوگی۔
پہلے نے کہا
میں کچھ کہہ نہیں سکتا کیونکہ پچھلے دو سال سے ہماری بول چال بند ہے۔

دو ہندو بھائیوں میں ایک بھائی اپنے بت کو مانتا تھا اور دوسرا بھائی بتوں کو نہیں مانتا تھا پہلا بھائی صبح اٹھ کر اپنے بت پوجا کرتا تھا تو دوسرا بت کو گن کر دس جوتے مارا کرتا تھا۔ایک روز یہ بت پجاری کے خواب میں آکر کہنے لگا کہ “تم اپنے بھائی کو سمجھاؤ۔وہ ہماری توہین نہ کرے ورنہ ہم تمھیں تباہ کر دیں گے۔“

پجاری نے عرض کی کہ “بھگوان میں تو ہر روز تمھاری پوجا کرتا ہوں اور تم سزا بھی مجھے ہی دینا چاہتے ہو جو جوتے مارتا ہے اسے سزا کیوں نہیں‌دیتے ؟“

بت نے جواب دیا کہ“جو ہمیں مانتا ہی نہیں‌ہم اسے کیسے سزا دے سکتے ہیں۔ہم تو اسی کو سزا دیں گے جو ہمیں مانتا ہے۔
“اس طرح امریکا کا رعب بھی انہی ممالک پر چلتا ہے جو اسے مانتے ہیں جو نہیں‌مانتے امریکا ان کا کچھ نہیں‌بگاڑ سکتا۔

حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما راوی ہیں کہ ہم لوگ ایک سفر میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آپ ایک کھجور کے درخت کے نیچے تشریف فرما تھے کہ بالکل ہی اچانک ایک بہت بڑے کالے سانپ نے آپ کی طرف رُخ کیا،لوگوں نے اس کو مار ڈالنے کا ارادہ کیا لیکن آپ نے فرمایا کہ اس کو میرے پاس آنے دو۔
جب یہ آپ کے پاس پہنچا تو اپنا سر آپ کے کانوں کے پاس کر دیا۔ پھر آپ نے اس سانپ کے منہ کے قریب اپنا منہ کرکے چپکے چپکے کچھ ارشاد فرمایا اس کے بعد اسی جگہ یکبارگی وہ سانپ اس طرح غائب ہو گیا کہ گویا زمین اس کو نگل گئی۔
حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ نے سانپ کو اپنے کانوں تک پہنچنے دیا یہ منظر دیکھ کر ہم لوگ ڈر گئے کہ کہیں یہ سانپ آپ کو کاٹ نہ لے۔
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ سانپ نہیں تھا بلکہ جنوں کی جماعت کا بھیجا ہوا ایک جن تھا۔ فلاں سورہ میں سے کچھ آیتیں یہ بھول گیا۔ ان آیتوں کو دریافت کرنے کے لئے جنوں نے اس کو میرے پاس بھیجا تھا۔ میں نے اس کو وہ آیتیں بتا دیں اور وہ ان کو یاد کرتا ہوا چلا گیا۔
(الکلام المبين ص۹۴)

حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بھیڑیئے نے ایک بکری کو پکڑ لیالیکن بکریوں کے چرواہے نے بھیڑئیے پر حملہ کرکے اس سے بکری کو چھین لیا۔
بھیڑیا بھاگ کر ایک ٹیلے پر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ اے چرواہے! اﷲ تعالیٰ نے مجھ کو رزق دیا تھا مگر تو نے اس کو مجھ سے چھین لیا۔ چرواہے نے یہ سن کر کہا کہ خدا کی قسم! میں نے آج سے زیادہ کبھی کوئی حیرت انگیز اور تعجب خیز منظر نہیں دیکھا کہ ایک بھیڑیا عربی زبان میں مجھ سے کلام کرتا ہے۔
بھیڑیا کہنے لگا کہ اے چرواہے! اس سے کہیں زیادہ عجیب بات تو یہ ہے کہ تو یہاں بکریاں چرا رہا ہے اور تو اس نبی کو چھوڑے اور ان سے منہ موڑے ہوئے بیٹھا ہے جن سے زیادہ بزرگ اور بلند مرتبہ کوئی نبی نہیں آیا۔ اس وقت جنت کے تمام دروازے کھلے ہوئے ہیں اور تمام اہل جنت اس نبی کے ساتھیوں کی شانِ جہاد کا منظر دیکھ رہے ہیں اور تیرے اور اس نبی کے درمیان بس ایک گھاٹی کا فاصلہ ہے۔ کاش! تو بھی اس نبی کی خدمت میں حاضر ہو کر اﷲ کے لشکروں کا ایک سپاہی بن جاتا۔
چرواہے نے اس گفتگو سے متاثر ہو کر کہا کہ اگر میں یہاں سے چلا گیا تو میری بکریوں کی حفاظت کون کرے گا؟ بھیڑئیے نے جواب دیا کہ تیرے لوٹنے تک میں خود تیری بکریوں کی نگہبانی کروں گا۔ چنانچہ چرواہے نے اپنی بکریوں کو بھیڑئیے کے سپرد کر دیا اور خود بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر مسلمان ہو گیا اور واقعی بھیڑیئے کے کہنے کے مطابق اس نے نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اصحاب کو جہاد میں مصروف پایا۔ پھر چرواہے نے بھیڑئیے کے کلام کا حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلمنے فرمایا کہ تم جائو تم اپنی سب بکریوں کو زندہ و سلامت پائو گے۔
چنانچہ چرواہا جب لوٹا تو یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا کہ بھیڑیا اس کی بکریوں کی حفاظت کر رہا ہے اور اس کی کوئی بکری بھی ضائع نہیں ہوئی ہے چرواہے نے خوش ہو کر بھیڑیئے کے لئے ایک بکری ذبح کرکے پیش کر دی اور بھیڑیا اس کو کھا کر چل دیا۔
(زرقانی جلد۵ ص۱۳۵ تا ص۱۳۶)
اچانک کار نصیر صاحب کے جسم سے ٹکرائی اور وہ کئی فٹ دور اچھل کر گرے۔ اس کے بعد ان کا دماغ تاریکی میں ڈوبتا گیا۔ ارد گرد بھیڑ اکھٹی ہوتی چلی گئی ۔ انکے سر سے خون کافی مقدار میں بہہ چکا تھا اور بچنے کے امکانات کم تھے۔ بہر حال کار والے نے رحم دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے لوگوں کی مدد سے گاڑی میں ڈالا اور اسپتال پہنچادیا۔ کچھ دیر بعد نصیر صاحب کے گھر والے بھی جمع ہوگئے ۔
“سر کی چوٹ گہری ہے، آپریشن کرنا پڑے گا۔” ڈاکٹر نے نصیر صاحب کی بیوی سے کہا
“ڈاکٹر صاحب! نصیر بچ تو جائیں گے نا؟” بیوی نے گھگیائی ہوئی آواز میں پوچھا
“ابھی کچھ کہنا مشکل ہے۔”۔ ڈاکٹر نے لا پرواہی سے جواب دیا اور برابر کھڑے ایک ساتھی سے خوش گپیوں میں مصروف ہوگیا۔
—————————————————————————————————
آپریشن تھیٹر میں ایک ایمرجنسی کی کیفیت تھی۔ ہلکے نیلے رنگ کے گاؤن پہنے ہوئے اور منہہ چھپائے ڈاکٹر اور نرسیں تیزی سے اوزار کو ترتیب دینے میں مصروف تھے۔ تھیٹر کے اوزار ، مشینیں اور سرچ لائیٹیں بھیانک سا منظر پیش کررہی تھیں۔ نصیر صاحب کی آنکھیں بند تھیں اور وہ ساکت لیٹے ہوئے تھے۔ اچانک ان کے جسم میں حرکت ہوئی۔
“شاید اسے ہوش آرہا ہے۔ اسے جلدی بے ہوش کرو “۔ اسے دیکھ کر ایک ڈاکٹر بولا۔
بے ہوشی کا انجکشن لگادیا گیا ، اور نصیر صاحب کے دماغ میں روشن ہوتی چند شمعیں لو بھڑکنے سے پہلے ہی بجھ گئیں۔ لیکن بے ہوشی کا انجکشن اس کے لاشعور کو سلانے میں ناکام تھا۔ نصیر صاحب کے لاشعور میں ماضی کی فلم چلنے لگی۔ انہوں نے دیکھا کہ وہ سرکاری دفتر میں اپنی انیس گریڈ کی کرسی پر براجمان ہیں، سامنے ایک شخص بیٹھا ان سے مخاطب ہے۔
“بھائی میرے ! یہ مذہب وذہب، حرام اور حلا ل سب پرانی باتیں ہیں، زمانے کے ساتھ چلو، اگر آج تم نے اوپر کا مال کمایا ہوتا تو بنگلے ،گاڑیاں،خدام اور نہ جانے کیا کیا تمہاری جھولی میں ہوتا ۔ لیکن تم ہو کہ وہی ۱۲۰ گز کے مکان میں خود کو اور بیوی بچوں کو سسکا رہے ہو”۔ وہ شخص اپنی مکار آواز میں بولا۔
نصیر صاحب سے اس کی ملاقات پہلی نہیں تھی بلکہ اس سے قبل بھی وہ اس سے مل چکا تھا۔ پہلے تو وہ اس کی باتوں پر چراغ پا ہوجایا کرتے تھے، لیکن آج معاملہ کچھ اور تھا۔ انہیں اپنی بیوی کے کینسر کا علاج کروانے کے لئے ایک بڑی رقم درکار تھی لیکن نہ تو یہ رقم ان کے پاس موجود تھی اور نہ کوئی ادھار دینے کو تیار تھا۔
“اب بھی وقت ہے ، میری بات مان لو۔ بس کچھ بھی نہیں کرنا ہے،اس بل پر سائن کرنے ہیں اور پیسے تمہارے ۔تمہاری بیوی کا علاج بھی ہوجائے گا ہمارا کام بھی”۔ وہ شخص نصیر صاحب کو شش و پنج میں دیکھ کر بولا
نصیر صاحب اسی گومگو کیفیت میں تھے۔ وہ شخص آہستہ آہستہ انہیں رام کرتا رہا۔
“ٹھیک ہے! میں تیار ہوں۔ لیکن میں دستخط آج نہیں بلکہ کل کروں گا” یہ کہہ کر نصیر صاحب اٹھ گئے اور دفتر سے باہر نکل آئے۔ ان دماغ میں ایک بھونچال سا آیا ہوا تھا۔ ایک طرف بیوی کی زندگی اور دوسری طرف اللہ کی ناراضگی ۔ وہ اس کیفیت میں روڈ کے اس پار جانے کی کوشش کررہے تھے کہ کار کی ٹکرنے انہیں آپریشن تھیٹر پہنچادیا۔
—————————————————————————————————
آپریشن شروع ہوچکا تھا۔ سی ٹی اسکین کی رپورٹ کے مطابق دماغ میں خون جمع ہوا تھا۔ نصیر صاحب کا ساکت وجود ڈاکٹروں کے رحم و کرم پر تھا۔سرجن نصیر صاحب کے سر کو اوزار سے چھلنی کرنے میں مصروف تھا لیکن وہ انکے لاشعور میں چلنے والے مناظر سے بے خبر تھا۔
نصیر صاحب کے لاشعور میں کچھ عجیب و غریب کروڑوں سال پرانی باتیں آنے لگیں۔یہ شاید وہ دور تھا جب انسان کو اس دنیا میں نہیں بھیجا گیا تھا البتہ فرشتے اور جنات وجود میں آچکے تھے۔ پھر خدا نے آدم کی تخلیق کی اور ساتھ ہی اس نے فرشتوں اور دیگر مخلوقات کو اپنے منصوبے سے آگاہ کردیا کہ وہ دنیا میں انسانوں کو آزمائش کی غرض سے بھیجنے والا ہے۔انسان اس دنیا میں اللہ کا خلیفہ یعنی ایک بااختیار مخلوق ہوگا۔ فرشتوں نے اپنے خدشے کا اظہار کیا کہ اگر انسان کو ارادہ و اختیار دے کر بھیجا گیا تو یہ بڑا خون خرابا کرے گا۔ خدا نے جواب دیا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ پھر خدا نے فرشتوں کے اعتراض کو دور رکنے کے لئے آدم کو ان لوگوں کے نام سکھادئے جو اس اختیار کے باوجودانبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہونگے اور یہ لوگ اپنی جان جونکھوں میں ڈال کر بھی بندگی کے تقاضے پورے کریں گے ۔یہ دنیا کی سیج انہی کے لئے سجائی جارہی ہے ۔ باقی جو جھاڑ پھونس ہے اس کا مقدر جہنم کا ایندھن ہے کیونکہ وہ اپنے منتخب کردہ امتحان میں ناکام ہیں۔
جب فرشتوں کو اپنی لا علمی کا اندازہ ہوا تو وہ سر نگوں ہوگئے۔
اس کے بعد خدافرشتوں اور اس ذیل کی دیگر مخلوقات کو حکم دیا کہ وہ سب آدم کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیں۔
اس سجدے کا مطلب یہ تھا کہ اب یہ انسان دنیا میں ایک محدود معنوں بادشاہ اور حاکم کی حیثیت کا حامل گا ۔وہ خدا کی مشیت کے مطابق اس دنیا میں مسکن بنائے گا، تمدن کی تعمیر کرے گا، کائنات مسخر کرے گا، اپنی مرضی سے خیر و شر کا انتخاب کرے گا اور آزمائش کے مراحل طے کرکے اپنی جنت یا دوزخ خود منتخب کرے گا۔ اس سارے عمل میں فرشتوں اور جنات کو اس کے سامنے عمومی طور پر سرنگوں رہنا اور اس آزمائشی عمل میں روڑے اٹکانے سےگریز کرنا لازم ہوگا ۔
یہ حکم صرف فرشتوں ہی کے لئے نہیں تھا بلکہ اس قبیل کی دیگر مخلوقات کے لئے بھی تھا جن میں جنات بھی شامل تھے۔ انہی جنوں میں سےایک جن عزازیل نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔یہ سجدے سے انکار درحقیقت خدا کی اسکیم میں بغاوت کا اعلان تھا ۔
“او مردود !تونے کیوں سجدہ نہ کیا جبکہ میں نے تجھے اس کا حکم دیا”۔
خدا کی غضب ناک آواز گونجی۔
“میں اس انسان سے بہتر ہوں۔میں آگ اور یہ مٹی۔ بھلا میں اس کو کیوں سجدہ کرنے لگا”۔ عزازیل اپنی مکروہ آواز میں بولا۔
” تو پھر تو آج سے مردود اور ابلیس ہے ، تو میری بارگاہ سے نکل جا۔ بے شک تو تو انتہائی چھوٹے اور پست لوگوں میں سے ہے؟”
خدا نے اپنے فیصلے کا اعلان کیا۔
شیطان اس عزت افزائی پر بلبلا اٹھا اور چیلنج کے طور پر بولا۔
“اے خداوند! تیری عزت کی قسم! میں نچلا نہیں بیٹھنے والا۔میں اس انسان کو تجھ سے گمراہ کردوں گا، میں اس کی گفتگو، میل جول، لباس، تمدن و تہذیب غرض ہر راستے سے اس پر نقب لگاؤنگا تاکہ انہیں تیری بندگی سے برگشتہ کردوں اور تو ان میں سے اکثر لوگوں کو گمراہ اور بھٹکا ہوا پائے گا۔ بس تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے دے”۔
خدا نے شیطا ن کی بات سن جواب دیا۔
“جا تجھے اجازت ہے۔ تو اپنے پیادے اور سوار سب لشکر لے آ۔لیکن تیرا اختیار صرف وسوسے ڈالنے اور بہکانے تک ہے۔ پھر جس نے بھی تیری پیروی کی تو میں ان سب کو تیرے ساتھ جہنم میں ڈال دونگا جبکہ میرے چنے ہوئے بندوں پر تیرا کوئی اختیا ر نہ ہوگا”۔
پھر خدا نے آدم اور انکی بیوی حوا کو ایک عارضی جنت میں رکھا تاکہ دنیا میں پیش آنے والے امتحان کی نوعیت سے آگاہ کرسکے۔خدا نے دونوںکو بتایا کہ وہ جہاں چاہے رہیں اور جو چاہیں کھائیں پئیں البتہ وہ ایک مخصوص درخت کے قریب بھی نہ پھٹکیں کہیں وہ ممنوعہ پھل کو نہ کھالیں۔ ساتھ ہی انہیں یہ بھی بتادیا گیا کہ شیطان انہیں ورغلانے کی کوشش کرے گا۔
————————————————————————————————–
آدم اور انکی بیوی حوا جنت میں زندگی بسر کرنے لگے۔ جنت میں چار سو ایک صبح کاذب سا اجالا تھا۔ موسم معتدل اور ماحول انتہائی سازگار۔ ہر طرف ہریالی ۔ ساتھ ہی پانی کی نہریں بہہ رہی اور درخت پھلوں سے لدے ہوئے تھے۔ جب دونوں کو کسی پھل کی خواہش ہوتی تو درخت کی ڈالی جھک جاتی اور وہ اپنی خواہش کے مطابق پھل توڑ کر کھالیتے۔ دور انہیں وہ جگہ بھی نظر آتی جہاں ممنوعہ درخت موجود تھا ۔ وہ درخت ایک دور وادی میں تھا۔ اس وادی کی حدود ایک سیاہی مائل پانی کے چشمے سے شروع ہوتی تھی۔ دونوں نے تہیہ کرلیا تھا کہ اس چشمے کے قریب بھی نہیں پھٹکنا کہ کہیں خدا کی نافرمانی سرزد نہ ہوجائے۔
ایک دن ان کے پاس ایک اجنبی آیا اور آکر بولا۔
“یہ کیا تم دونوں یکسانیت سے بھرپور ایک بور زندگی گذار رہے ہو؟۔
آدم نے تشویش ناک نظروں سے اسے دیکھا اور بولے۔
“بھائی تم کون ہو اور کیا چاہتے ہو؟”
“یہ چھوڑو کہ میں کون ہوں”۔ اجنبی بولا
“اگر تم کچھ تبدیلی چاہتے ہو تو بتاؤ”۔
دونوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا اور پھر آدم بولے۔
“بھائی ہمیں ہمارے رب نے بہت کچھ دے رکھا ہے۔ہم خوش ہیں اور ہمیں تمہاری ضرورت نہیں”۔
اجنبی مایوسی کے عالم میں چلا گیا۔
دوسرے دن وہ اجنبی دوبارہ نظر آیا۔ اس دن وہ کافی پرجوش معلوم ہوتا تھا۔ وہ نزدیک آیا اور بولا۔
“بھائی میں آپ لوگوں کے لئے ایک خاص خبر لایا ہوں”۔
“وہ کیا؟” آدم بولے
” میں دروازے کے پیچھے کھڑا ہوا تھا کہ اچانک دو فرشتے آپس میں بات کررہے تھے”۔ اجنبی نے سرگوشی کے انداز میں اپنی بات جاری رکھی۔
“وہ کہہ رہے تھے کہ کالے چشمے کے اس پار ایک وادی ہے۔ اس وادی میں کچھ ایسے پھل ہیں جن کی تاثیر ان پھلوں سے جدا ہے، اس وادی کا حسن اس جگہ سے زیادہ ہے، وہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں اور وہاں زندگی کا رنگ بالکل ہی نرالا ہے”۔
آدم پر تجسس نگاہوں سے اجنبی کو دیکھنے لگے۔ اجنبی نے تیر نشانے پر لگتے ہوئے دیکھ کر مزید کہا۔
“ایک اور اہم بات ۔ اور یہ بات میں صرف تمہیں بتا رہا ہوں کیوں کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔وہ یہ کہ اس جگہ پر ایک ایسا درخت ہے جس کا پھل کھانے سے انسان کو ہمیشگی کی زندگی حاصل ہوجاتی ہے اور وہ کبھی نہیں مرتا بلکہ وہ تو فرشتہ بن جاتا ہے۔ بہر حال اب میں چلتا ہوں، اگر کوئی مزید خبر ملی تو کل بتاؤ ں گا”۔ یہ کہہ کر وہ چلتا بنا۔
ساری رات آدم اور انکی بیوی اجنبی کی باتوں میں سوچتے رہے۔ وہ اسی شش وپنج میں گرفتار تھے کہ اس کالے چشمے والی حد کو پار کرکے اس وادی میں جانا ہے یا نہیں۔ دونوں نے کافی سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ اس وادی میں چلتے ہیں کیونکہ خدا نے ادھر جانے سے تو منع نہیں کیا البتہ وہ اس درخت کا پھل نہیں کھائیں گے۔ دوسری صبح وہ اس اجنبی کا بے چینی سے انتظار کرنے لگے۔جب وہ نظر آیا تو اس نےگذشتہ ملاقاتوں کے برعکس لا تعلقی کا اظہار کیا۔ وہ دونوں مایوس ہوگئے کہ شاید اس کی نیت بدل گئی۔ چنانچہ وہ واپس جانے لگے۔ اجنبی نے جب بازی پلٹتی دیکھی تو ان دونوں کے پیچھے بھاگا اور بولا۔
“بھائی اگر تم دونوں اپنا فیصلہ کرہی چکے ہو تو آؤ میں تمہیں اس حسین وادی میں لے چلوں۔چنانچہ وہ ان دونوں کو لے کر کالے چشمے کےاس پار لے آیا۔ آدم اور انکی بیوی وہاں کی خوبصورتی دیکھ کر حیران رہ گئے۔ جوں جوں وہ اس وادی داخل ہوتے گئے انکا خوف مسرت میں تبدیل ہوتا گیا۔ اجنبی مسکراتا ہواان کے پاس آیا اور بولا۔
“میں نہ کہتا تھا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔تم خواہ مخواہ مجھے مشکوک انداز میں دیکھ رہے تھے۔ اب یہاں کھاؤ پیو عیش کرو۔”۔
چند دن گذارنے کے بعد اجنبی ان دونوں کے پاس آیا اور بولا۔
“بھائی یہ عیش کی زندگی گذارلو کیونکہ تمہارے اس چند ہی دن ہیں”۔
“وہ کیوں”۔
آدم نے استفسار کیا
“وہ اس لئے کہ تم نے ہمیشگی کی زندگی والا پھل نہیں چکھا۔ اگر تم وہ کھالو تو تم فرشے بھی بن سکتے ہو۔ پھر خدا کے مزید قریب ہوجاؤگے اور اس جنت میں بلا روک ٹوک جہاں چاہوگے گھوم پھر سکوگے”۔ اجنبی بولا۔
” تم چاہتے ہو کہ ہم اس ممنوعہ درخت کا پھل کھائیں جس سے ہمارے رب نے منع فرمایا ہے؟”۔ آدم نے پوچھا۔
“بھائی تم جانتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ کتنے غفور اور رحیم ہیں۔ اورمیں یہ تھوڑا ہی چاہتا ہوں کہ تم پورا ہی وہ پھل کھالو ۔ بس تھوڑا سا چکھ لو ۔ اگر خدا نے ناراضگی کا اظہار کیا تو پھینک دینا۔ اور ویسے بھی اس کو کھانے کے بعد تم ایسےفرشتے بن جاؤ گے جسے خدا کا قرب حاصل ہوگا تو فکر کیسی؟”۔ اجنبی گھاگ انداز میں بولا
بہرحال آدم اور حو ا کا اطمینان قلب نہ ہوا۔ وہ رات ان دونوں نے بحث و مباحثے میں گذاری۔ اگلی صبح پھر اجنبی کا آمنا سامنا ہوا۔اجنبی نے دونوں کو شش و پنج کے عالم میں دیکھ کر خوش ہوا لیکن اپنی خوشی کوان سے چھپاکر لاپرواہی کا اظہار کرنے لگا۔ جب دونوں نے کچھ نہ کہا تو خود ہی بولا۔
” کل میں نے ایک فرشتے سے پوچھا کہ وہ کس طرح فرشتہ بنا تو معلوم اس نے کیا جواب دیا؟”
جب دونوں خاموشی سے اس کی جانب دیکھتے رہے تو خود ہی بولا۔
“اس نے مجھے بتایا کہ اس نے اس درخت کا پھل کھایا تھا۔ تو اب وہ فرشتہ بھی ہےاور اسے موت بھی نہیں آئے گی”۔
“لیکن اس پھل میں تو خدا کی معصیت اور نافرمانی ہے”۔ آدم احتجاج کے انداز میں بولے
“ارے بھائی ! اتنے چھوٹے موٹے گناہوں پر بھی کوئی گرفت تھوڑی ہوتی ہے۔ بس پھل ہی تو کھانا ہے اور بس”۔
اجنبی نے جواب دیا۔
باتوں باتوں میں دونوں کو اندازہ بھی نہ ہوا کہ اجنبی انہیں اس ممنوعہ درخت کے قریب لے آیا ہے۔دونوں نے جب پھل کو اتنے قریب دیکھا اور اجنبی کی متاثر کن باتیں سنیں تو خود پر قابو نہ رکھ سکے اور درخت کا پھل کھالیا۔ پھل کھاتے ہی ماحول بدل گیا۔ ارد گرد کا نیلگوں آسمان سیاہی مائل ہوگیا، سبزہ کاہی میں بدل گیا اور سبز پتے سوکھ کر خش و خاشاک کی طرح اڑنے لگے۔ دونوں کو پہلی مرتبہ یہ احساس ہوا کہ جنت کی پوشاک ان سے چھینی جاچکی ہے۔ چنانچہ وہ درخت کے پتوں سے اپنے آپ کو ڈھانپنے لگے۔ انہوں نے اس مشکل صورت حال میں جب اجنبی کو تلاش کیا تو وہ دور کھڑا نظر آیا۔ اسکی معصوم صورت کریہہ شکل میں بدل چکی تھی اور اسکے دانت بھیڑئے کے دانتوں جیسے ہوچلے تھے۔ وہ اجنبی نزدیک آیا اور بولا۔
“میں شیطان ہوں۔ میں نے خدا کو چیلنج کیا تھا کہ میں اس انسان کو تیری بندگی اور جنت سے دور رکھ کر چھوڑوں گا۔ آج یہ میرا پہلا حملہ ہے۔ میری ساری باتیں جھوٹی اور سارے وعدے فریب تھے۔ نہ یہ درخت فرشتہ بناتا ہے اور نہ ہی یہ ہمیشگی کی زندگی عطا کرتا ہے۔اب بھگتو ! اس کی سزا جو تم نے عمل کیا”۔
————————————————————————————————–
آدم و حوا کے یہ سن کر اوسان خطا ہوگئے کہ وہی شیطان تھا جس سے بچ کر رہنے کا خدا نے حکم دیا تھا اور وہ اسی دشمن کی باتوں میں آگئے ۔ دونوں کو احسا س ہوا کہ جذبات میں آکر وہ جو قدم اٹھا چکے ہیں اس سے وہ خدا کی فراہم کردہ نعمتوں سے محروم ہوگئے ہیں۔ ایک بے بسی طاری تھی۔ رات میں جگمگاتے تارے کہیں گم ہوچکے تھے، وہ چہچہاتے پرندے دور ہوکر خاموش ہوگئے تھے، سب جھرنے اور آبشار خشک ہوچلے تھے۔ غرض ہر شے دونوں سے برات کا اعلان کرہی تھی کیونکہ وہ خدا کی نافرمانی کے مرتکب ہوئے تھے۔
اس یاسیت اور اندوہ ناک غم میں دونوں کی روتے روتے آنکھیں خشک ہوگئی تھیں۔ انہیں جنت کی نعمتوں کے چھن جانے کا اتنا افسوس نہ تھا جتنا اپنے پیارے اور محسن رب کی ناراضگی کا۔ جس نے وجود دیا، اس کے تقاضے پیدا کئے، ان تقاضوں کو احسان کے درجے میں پورا کیا پھر نت نئے رنگ دے کر زندگی کا سامان کیا ، آج سی کو فراموش کردیا، اسی کی بات کو رد کردیا ، آج اسی کے دشمن کی بات مان لی۔ یہ احساس دونوں کو مارے ڈال رہا تھا۔
پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ان کے رب نے انہیں پکارا۔
“کیا میں نے تم دونوں کو منع نہیں کیا تھا کہ اس درخت کے قریب مت پھٹکنا اور اچھی طرح سمجھادیا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے؟ پھر یہ نافرمانی کیوں؟”
دونوں روتے ہوئے سجدے میں گر گئے۔ اور گڑگڑا کر دعا مانگے لگے۔
“اے رب ! بے شک ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تونے ہمیں معاف نہ کیا اور ہماری حالت زار پر رحم نہ کیا تو ہم تو ابدی نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے”۔
ایک نافرمانی شیطان نے بھی کی تھی لیکن جب خدا نے اسے اسکی غلطی کا احساس دلایا تو بجائے اپنی غلطی ماننے کے اس نے خدا ہی کو مورود الزام ٹہرادیا اور سرکشی دکھائی۔ لیکن آدم و حوا نے اس کے برعکس رویہ کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے خود کو مورود الزام ٹہرایا اور خدا سامنے جھک کر معافی اور رحم کا مطالبہ کیا اور توبہ کے ذریعے اپنی اصلاح کی پیش کش کی۔خدا نے دونوں کو معاف کردیا کیونکہ وہ واقعی غفور یعنی ڈھانپ لینے والا ہے اور انتہائی شفیق اور مہربان ہے۔
————————————————————————————————–
پھر منظر بدلا اور خدا آدم سے مخاطب ہوا۔
“اے آدم، اس تجربے سے سبق حاصل کرنے کے بعد اب تم اپنی بیوی کے ساتھ زمین میں اترو اور ساتھ ہی یہ مردود شیطان بھی۔ تم دونوں ایک دوسرے کے دشمن رہو گے۔ تمہیں ایک مقررہ مدت امتحان تک اسی زمین میں جینا اور یہیں مرنا ہے اور اسی زمین سے تم دوبارہ زندہ کرکے آخرت کی جوابدہی کے لئے اٹھائے جاؤگے۔بس اپنے اس ازلی دشمن ابلیس سے بچ کر رہنا۔میں نے تمہاری فطرت میں خیر اور شر کا بنیادی شعور رکھ دیا ہے ۔ اسی کے ساتھ ہی میں نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے ہدایت کا بندوبست بھی کیا ہے۔ چنانچہ جس کسی کے پاس بھی یہ نور ہدایت پہنچے اور وہ اس کی پیروری کرے تو وہ شیطان کو شکست دینے میں کامیاب ہوجائے گا ۔یاد رکھو شیطان اور اس کا قبیلہ تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتا ہے جہاں سے تمہارا گمان بھی نہیں ہوتا۔ وہ تو چاہتا ہے کہ تمہیں فحاشی، خدا سے بغاوت، ظلم و عدوان اور فساد فی الارض کی زندگی میں ملوث رکھے تاکہ تمہیں میری بندگی سے نکال کر لے جائے۔ پس جس نے میرا کہا مانا تو وہ میرابندہ ہے اور جس نے اس کی بات مانی تومیری بندگی سے نکل گیا”۔
————————————————————————————————–
آپریشن مکمل ہوچکا تھا۔ سرجن نصیر صاحب کے سر میں آخری ٹانکے لگا رہا تھا۔ باہر ان کی بیوی اور بچے بے چینی کے عالم میں ٹہل رہے تھے۔ یہ چند گھنٹے ان کے لئے صدیا ں بن گئے تھے۔اچانک دور انہیں ایک ڈاکٹر تھیٹر سے باہر نکلتا نظر آیا۔ سب اسکی جانب بے تابی سے لپکے۔
“ڈاکٹر صاحب کیا ہوا!” بیگم نصیر نے پوچھا
“آپریشن کامیاب ہوگیا ہے، آپ کو مبارک ہو! بس چند گھنٹوں بعد انہیں ہوش آجائے گا”۔ڈاکٹر نے جواب دیا
ہوش میں آنے کے بعد نصیر صاحب کی آنکھیں کھلیں تو ابتدا میں تو وہ کچھ دیکھنے سے قاصر رہے۔ جب آنکھیں اس اجالے کی عادی ہوئیں تو دیکھا کہ انکے بیوی بچے ان پر جھکے ہوئے تھے۔
انہوں نے اپنی بیوی کو دیکھا اور انکی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ اپنی اہلیہ کی بیماری کے بارے میں سوچنے لگے۔اسی اثناء کہ شیطان پھر حملہ آور ہوا اور ورغلانے لگا۔ لیکن نصیر صاحب کی روح جو سفر طے کرکے آرہی تھی اس سبق یہی تھا کہ رب کی رضا کے لئے بڑے سے بڑا نقصان گوارا ہے۔ چنانچہ وہ شیطان سے مخاطب ہوئے۔
“مجھے اپنی بیوی کی موت گوارا ہے لیکن تیری اطاعت منظور نہیں”۔
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ قبیلہ بنی سلیم کا ایک اعرابی ناگہاں حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی محفل کے پاس سے گزرا آپ اپنے اصحاب کے مجمع میں تشریف فرما تھے۔
یہ اعرابی جنگل سے ایک مردہ گوہ پکڑ کر لارہا تھا اعرابی نے آپ کے بارے میں لوگوں سے سوال کیا کہ وہ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ اﷲ کے نبی ہیں۔ اعرابی یہ سن کر آپ کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا کہ مجھے لات و عزیٰ کی قسم ہے کہ میں اس وقت تک آپ پر ایمان نہیں لائوں گا جب تک میری یہ گوہ آپ کی نبوت پر ایمان نہ لائے، یہ کہہ کر اس نے گوہ کو آپ کے سامنے ڈال دیا۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلمنے گوہ کو پکارا تو اس نے لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَاتنی بلند آواز سے کہا کہ تمام حاضرین نے سن لیا۔ پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تیرا معبود کون ہے؟ گوہ نے جواب دیا کہ میرا معبود وہ ہے کہ اس کا عرش آسمان میں ہے اور اس کی بادشاہی زمین میں ہے اور اس کی رحمت جنت میں ہے اور اس کا عذاب جہنم میں ہے۔
پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اے گوہ! یہ بتا کہ میں کون ہوں؟ گوہ نے بلند آواز سے کہا کہ آپ رب العالمین کے رسول ہیں اور خاتم النبیین ہیں جس نے آپ کو سچا مانا وہ کامیاب ہو گیا اور جس نے آپ کو جھٹلایا وہ نامراد ہو گیا۔
یہ منظر دیکھ کر اعرابی اس قدر متاثر ہو ا کہ فورا ً ہی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میں جس وقت آپ کے پاس آیا تھا تو میری نظر میں روئے زمین پر آپ سے زیادہ ناپسند کوئی آدمی نہیں تھا لیکن اس وقت میرا یہ حال ہے کہ آپ میرے نزدیک میری اولاد بلکہ میری جان سے بھی زیادہ پیارے ہو گئے ہیں۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا کے لئے حمد ہے جس نے تجھ کو ایسے دین کی ہدایت دی جو ہمیشہ غالب رہے گا اور کبھی مغلوب نہیں ہو گا۔ پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو سورئہ فاتحہ اور سورئہ اخلاص کی تعلیم دی ۔
اعرابی قرآن کی ان دو سورتوں کو سن کر کہنے لگا کہ میں نے بڑے بڑے فصیح و بلیغ، طویل و مختصر ہر قسم کے کلاموں کو سنا ہے مگر خدا کی قسم! میں نے آج تک اس سے بڑھ کر اور اس سے بہتر کلام کبھی نہیں سنا۔ پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے فرمایا کہ یہ قبیلہ بنی سلیم کا ایک مفلس انسان ہے تم لوگ اس کی مالی امداد کر دو۔یہ سن کر بہت سے لوگوں نے اس کو بہت کچھ دیا یہاں تک کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو دس گابھن اونٹنیاں دیں۔ یہ اعرابی تمام مال و سامان کو ساتھ لے کر جب اپنے گھر کی طرف چلا گیا
اس حدیث کو طبرانی و بیہقی و حاکم و ابن عدی جیسے بڑے بڑے محدثین نے روایت کیا ہے۔
(زرقانی ج۵ ص ۱۴۸ تا ص ۱۴۹)
ایک پروفیسر نے اپنی کلاس کا آغاز کرتے ہوئے ایک گلاس اٹھایا جس کے اندر کچھ پانی موجود تھا - اس نے وہ گلاس بلند کر دیا تا کہ تمام طلبہ اسے دیکھ لیں پھر اس نے طالب علموں سے سوال کیا " تمھارے خیال میں اس گلاس کا وزن کیا ہوگا ؟ "

" پچاس گرام ! "

" سو گرام ! "

" ایک سو پچیس گرام "

لڑکے اپنے اپنے اندازے سے جواب دینے لگے -

" میں خود صحیح وزن نہیں بتا سکتا جب تک کہ میں اس کا وزن نہ کر لوں ! "

پروفیسر نے کہا ! " مگر میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہوگا اگر میں اس گلاس کو چند منٹوں کے لئے اسی طرح اٹھائے رہوں ؟"

کچھ نہیں ہوگا ! تمام طالب علموں نے جواب دیا -

ٹھیک ہے اب یہ بتاؤ کہ اگر میں اس گلاس کو ایک گھنٹے تک یونہی اٹھائے رہوں تو پھر کیا ہوگا ؟

آپ کے بازو میں درد شروع ہو جائے گا -

تم نے بلکل ٹھیک کہا - پروفیسر نے تائیدی لہجے میں کہا -

اب یہ بتاؤ کہ اس گلاس کو میں دن بھر اسی طرح تھامے رہوں تو کیا ہوگا ؟

آپ کا بازو سن ہو سکتا ہے ایک طالب علم نے کہا

آپ کا پٹھا اکڑ سکتا ہے دوسرے نے کہا

آپ پر فالج کا حملہ ہو سکتا ہے

لیکن آپ کو اسپتال تو لازمی جانا پڑیگا ایک طالب علم نے جملہ کسا اور پوری کلاس قہقہے لگانے لگی -

بہت اچھا ! پروفیسر نے برا نہ مناتے ہوئے کہا -

لیکن اس تمام دوران میں کیا گلاس کا وزن تبدیل ہوا ؟

نہیں - طالب علموں نے جواب دیا -

تو پھر بازو میں درد اور پٹھا اکڑنے کا سبب کیا تھا ؟

طالب علم چکرا گئے -

گلاس نیچے رکھ دیں - ایک طالب علم نے کہا -

بلکل صحیح ...! پروفیسر نے کہا " ہماری زندگی کے مسائل بھی کچھ اسی قسم کے ہوتے ہیں آپ انھیں اپنے ذہن پر چند منٹ سوار رکھیں تو وہ ٹھیک ٹھاک لگتے ہیں - انھیں زیادہ دیر تک سوچتے رہیں تو وہ سر کا درد بن جائیں گے

انھیں اور زیادہ دیر تک تھامے رہیں تو وہ آپ کو فالج زدہ کر دیں گے آپ کچھ کرنے کے قابل نہیں رہیں گے -

اپنی زندگی کے چیلنجز کے بارے میں سوچنا یقینن اہمیت رکھتا ہے لیکن

" اس سے کہیں زیادہ اہم ہر دن کے اختمام پر سونے سے پہلے انھیں ذہن پر سے اتار دینا ہے - اس طریقے سے آپ کسی قسم کے ذہنی تناؤ میں مبتلا نہیں رہیں گے - ہر روزصبح آپ تر و تازہ اور اپنی پوری توانائی کے ساتھ بیدار ہونگے اور اپنی راہ میں آنے والے کسی بھی ایشو کسی بھی چیلنج کو آسانی سے ہینڈل کر سکیں گے لہٰذا گلاس کو نیچے رکھنا یاد رکھیں

لوگوں کے ساتھ میل جول رکھنا ، اور ان کی ضرورتیں پوری کرنا ہی عبادت ہے ۔ وہ آپ کی محبت سے اور شفقت سے محروم رہیں گے تو معاشرے میں کال پڑ جائے گا ، اور آپ کی ضرورتیں بھی رُک جائیں گی ۔ صرف منہ سے بات کر کے لوگوں کی خدمت نہیں ہوتی اس میں عمل بھی ہونا چاہیے ۔ ہمارے جتنے بھی ادیب اور شاعر تھے ، عملی زندگی بسر کرتے تھے ۔ امام غزالی پڑھنا لکھنا چھوڑ کر صاحبِ مال ہوئے لوگوں سے ملے جلے ۔ شیخ اکبر ابنِ عربی ، فرید الدین عطار،رومی ادہر ہندوستان میں داتا صاحب ، معین الدین چشتی ، حضرت بختیار کاکی یہ سب لوگوں کے کام کرتے تھے۔ مخلوقِ خدا کے کام آتے تھے ۔ ان کی بہتری کے لیے ان کے ہاتھ بٹاتے تھے ۔ کیونکہ یہ حضور کی سنت تھی اور یہ سب لوگ اس سنت پر ہی عمل کر کے آگے بڑھ سکتے تھے ۔
اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ
401

صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم مدینہ کے چاروں طرف کفار کے حملوں سے بچنے کے لیے خندق کھود رہے تھے اتفاق سے ایک بہت ہی سخت چٹان نکل آئی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اپنی اجتماعی طاقت سے ہر چند اس کو توڑنا چاہا مگر وہ کسی طرح نہ ٹوٹ سکی، پھاوڑے اس پر پڑ پڑ کر اُچٹ جاتے تھے۔ جب لوگوں نے مجبور ہو کر خدمت اقدس میں یہ ماجرا عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اٹھ کر تشریف لائے اور پھاوڑا ہاتھ میں لے کر ایک ضرب لگائی تو وہ چٹان ریت کے بھر بھرے ٹیلوں کی طرح چور ہو کر بکھر گئی۔
(بخاری جلد ۲ ص ۵۸۸ خندق)
حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ارت نے جونہی اسلام قبول کیا۔ مشرکین مکہ کو فوراً اس کی اطلاع ہوگئی اور انہوں نے حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ظلم وستم کے وہ پہاڑ توڑے کہ جو بھی مسلمان سنتا انگاروں پر لوٹنے لگتا۔ اہل مکہ نے لوہا گرم کرکے ان کا سر داغا کوئلوں کو دہکا کر حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ننگے بدن ان پر لٹایا۔ اب اس ظلم و ستم کے بعد بھی حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی کمزوری کا اظہار نہ کیا تو کفار کے دلوں میں مزید غصہ اور بدلہ لینے کا جذبہ پیدا ہوا اور انہوں نے پہلے تو ایک بھاری پتھر حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سینے پر رکھا....
پھر ایک شیطان نے اس پتھر پر چڑھ کر اچھل کود شروع کردی۔ دہکتے ہوئے کوئلے ان کے جسم کو جلا کر کمر میں گھس گئے اور چربی پگھل پگھل کر بہنے لگی اس سے کوئلے بھی بجھ گئے۔
حضرت خباب بن الارت رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر کفار نے اس قدر ظلم کیے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز بے اختیار ان کے حق میں دعا کی ....! اے اللہ خباب کی مدد فرما۔ حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیٹھ پر جلنے کے یہ داغ ہمیشہ موجود رہے۔ ان کی کھال جل گئی اور سفید داغ پڑگئے تھے۔ ان کا چھوٹا بچہ کمر کے ان سوراخوں میں انگلی ڈال کرکھیلا کرتا تھا۔ یہ تھے صبرواستقامت (برداشت کرنا اور دین پر جم جانا) کے زندہ پہاڑ حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن کا مبارک نام اسلام کی تاریخ کے صفحات پر جگمگارہا ہے۔

اشفاق احمد زاویہ

جب ہم اسکول میں پڑھتے تھے تو ایک ادھیڑ عمر کا شخص جس کا رنگ گندمی اور ماتھے پر بڑھاپے اور پریشانی سے لکیریں پڑہی ہوئیں تھیں ۔ وہ اسکول میں لچھے بیچنے آیا کرتا تھا ۔ اس کے بنائے ہوئے رنگ برنگ کےلچھے ہم سب کے من پسند تھے ۔ وہ ہمیں ان چینی کے بنے فومی لچھوں کے طوطے ، بطخیں اور طرح طرح کے جانور بھی بنا کر دیا کرتا تھا ۔ ہم اس سے آنے آنے کے لچھے کھاتے اور وہ بڑے ہی پیار سے ہم سے پیش آتا تھا ۔ مجھے اب بھی اس کی بات یاد ہے اور جب ایک سپر پاور نے افغانستان پر حملہ کیا تو بڑی شدت سے یاد آئی حالانکہ میں اسے کب کا بھول چکا تھا ۔ ہم سب بچوں سے وہ لچھے والا کہنے لگا ۔
" کاکا تسیں وڈے ہو کے کیہہ بنو گے ۔ "

ہم سب نے ایک آواز ہو کر کہا کہ " ہم بڑے افسر بنیں گے " ۔
کسی بچے نے کہا میں " فوجی بنوں گا " ۔
وہ ہم سے پیار کرتے ہوئے بولا " پتر جو وی بنو ، بندے مارنے والے نہ بننا ۔ بندے مارن نالوں بہتر اے تسی لچھے ویچن لگ پینا پر بندے مارن والے کدی نہ بننا " ۔ (بیٹا جو بھی بنو لیکن کبھی قاتل نہیں بننا-قاتل بننے سے بہتر ہے آپ لچھے بیچنے والے بن جانا- لیکن کبھی قاتل نہیں بنناـ)

اشفاق احمد زاویہ 3 لچھے والا صفحہ31 

ممتاز مفتی

ایک پہاڑی کی چوٹی پر تین دیو رہتے تھے۔ ہوا، پانی اور بجلی۔پہاڑی کے نیچے ایک گائوں تھا۔ ان دیوئوں نے گائوں والوں کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی۔ کبھی پانی برستا اورپانی کا ریلا گائوں کو بہا کر لے جاتا۔ کبھی ہوا اس قدر زور سے چلتی کہ کھیت برباد ہوجاتے۔ کبھی بجلی کڑک کڑک کر گرتی اور گائوں والوں کے مویشی مر جاتے۔ گائوں والے ان دیوئوں سے بہت تنگ تھے۔

گائوں کا ایک سیانا بڈھا کہنے لگا کہ بھائیو! یوں تو جینا محال رہے گا۔ کیوں نہ ہم ایک وفد پہاڑ کی چوٹی پر بھیجیں اوران تینوں دیوئوں سے بات کریں۔ ممکن ہے کہ وہ ہم سے سمجھوتا کرنے پر رضا مند ہوجائیں، چنانچہ وفد بھیجا گیا۔ دیوئوں نے کہا ’’بھائیو!‘‘ ہم تمہارے دشمن نہیں۔ الٹا ہم تو تمہاری خدمت کرنے کو تیار ہیں۔ دراصل مشکل یہ ہے کہ ہم کچھ کرنے کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ تم ہمیں جو کام دو گے ہم کریں گے لیکن اگر تم نے ہمیں کرنے کیلئے کام نہ دیا تو ہم تمہاری بستی کو تباہ کردیں گے۔

مجھے ایسا لگتا ہے جیسے ہماری نئی نسل ان تین دیوئوں جیسی ہے۔ وہ کچھ کیے بغیر نہیں رہ سکتی اور چونکہ ہم نے انہیں بے قدری اور بے کاری کے عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے اس لیے وہ ایڈونچر کی تلاش میں تخریب کی جانب چل نکلے ہیں۔ تمام تر قصور ہمارا ہے۔

ممتاز مفتی

میں واصفِ بسمل ہوں، میں رونقِ محفل ہوں اک ٹوٹا ہوا دل ہوں، میں شہر میں ویرانہ

میں نعرۂ مستانہ، میں شوخیِ رندانہ
میں تشنہ کہاں جاؤں، پی کر بھی کہاں جانا

میں طائرِ لاہوتی، میں جوہرِ ملکوتی
ناسوتی نے کب مجھ کو، اس حال میں پہچانا

میں سوز محبّت ہوں، میں ایک قیامت ہوں
میں اشکِ ندامت ہوں، میں گوہرِ یکدانہ

کس یاد کا صحرا ہوں، کس چشم کا دریا ہوں
خود طُور کا جلوہ ہوں، ہے شکل کلیمانہ

میں شمعِ فروزاں ہوں، میں آتشِ لرزاں ہوں
میں سوزشِ ہجراں ہوں، میں منزلِ پروانہ

میں حُسنِ مجسّم ہوں، میں گیسوئے برہم ہوں
میں پُھول ہوں شبنم ہوں، میں جلوۂ جانانہ

میں واصفِ بسمل ہوں، میں رونقِ محفل ہوں
اک ٹوٹا ہوا دل ہوں، میں شہر میں ویرانہ

- واصف علی واصف

سب ضدیں اس کی میں پوری کروں ، ہر بات سنوں ایک بچے کی طرح سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے ہنستا دیکھوں!!

میں نے جس لمحے کو پوجا ہے ، اسے بس اک بار
خواب بن کر تری آنکھوں میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اترتا دیکھوں


بند کر کے مری آنکھیں وہ شرارت سے ہنسے

بوجھے جانے کا میں ہر روز ۔۔۔۔۔۔ تماشا دیکھوں


تو مرا کُچھ نہیں لگتا ہے مگر ۔۔۔۔۔ جانِ حیات!
جانے کیوں تیرے لیے دل کو دھڑکتا دیکھوں!

سب ضدیں اس کی میں پوری کروں ، ہر بات سنوں
ایک بچے کی طرح سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے ہنستا دیکھوں!!

 

Say To ALHUMDULILLAH!



Laa Haasil By Umera Ahmed


Umera Ahmed


Iman.Umeed r Mhbt By Umera Ahmed


Life Like, , , ,


Pray..!!


Without ALLAH,I m Nothing!


Strange :-P


Doll Just Like Real Baby..:)


Jo Sota Hy Woh Khota Hy:D


I Need U Always..!!


Why..?



ہاتھ کی لکیروں میں
کیا تلاش کرتے ہو
ان فضول باتوں میں
کس لئے الجھتے ہو
جس کو ملنا ہوتا ہے
بن لکیر دیکھے ہی
زندگی کے راستوں پر
ساتھ ساتھ چلتا ہے
پھر کہاں بچھڑتا ہے
جو نہیں مقدر میں
کب وہ ساتھ چلتا ہے
ہاتھ کی لکیروں میں
کیا تلاش کرتے ہو

Happy New Year!


Zindagi Kia Hy..!!



Dukh Bolty Hyn..!!


پھر اس کے جنازے کو اٹھانا بھی پڑے گا
عزت سرِ بازار ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ اچھالا نہیں کرتے

Kaaashhh...!!


Tu Shaheen Hy. . .


Ye Rut...


Hum Na Kehty Thay. . .


Mohabbat Jeet Jaati Hy..


"Masiha Ho"



"FITRAT"


Ham Mashriq K Musalmanon Ka Dil Magrib Mein Ja Atka Hai

ham mashriq k musalmanon ka dil magrib mein ja atka hai
wahan kuntar sab billori hai, yahan ek purana matka hai
is daur mein sab mit jayenge, han baqi wo rah jayega
jo qayam apni rah pe hai, aur pakka apni hat ka hai
ae shaikh-o-brahman sunte ho kya ahl-e-basirat kahte hain
gardon ne kitani bulandi se un qaumon ko de patka hai

Ata Hai Yad Mujhko Guzara Hua Zamana

ata hai yad mujhko guzara hua zamana
wo bag ki baharen wo sab ka chah-chahana
azadiyan kahan wo ab apne ghonsale ki
apni khushi se ana apni khushi se jana
lagti ho chot dil par, ata hai yad jis dam
shabnam k anson par kaliyon ka muskurana
wo pyari pyari surat, wo kamini si murat
abad jis k dam se tha mera ashiyana

Ajab Waiz Ki Din-Dari Hai Ya Rab

ajab waiz ki din-dari hai ya rab
adawat hai ise sare jahan se
koi ab tak na ye samjha k insan
kahan jata hai ata hai kahan se
wahin se rat ko zulmat mili hai
chamak taron ne pai hai jahan se
ham apni dard-mandi ka fasana
suna karte hain apne razdan se
bari barik hain waiz ki chalen
laraz jata hai awaz-e-azan se